چھ سالہ عائزہ بی بی جب پیدا ہوئی تو اس کے دل میں سوراخ تھا۔ تاہم اس کے والدین مالی تنگ دستی کی وجہ سے کئی سالوں تک اس کا بروقت علاج کروانے سے قاصر رہے۔
ایسے میں جب رواں ماہ پشاور میں امراض قلب کے لیے حال ہی میں قائم اپنی نوعیت کے پہلے بڑے اور جدید ترین سہولیات فراہم کرنے والے سرکاری ہسپتال پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں بچوں کے امراض قلب کے علاج کی سہولیات شروع ہوئیں تو عائزہ کے والدین کو ایک امید مل گئی۔
عائزہ کے دل میں سوارخ بند کرنے کا آپریشن پی آئی سی میں کسی بچے کا پہلا کامیاب آپریشن تھا۔
عائزہ کے والد محمد وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے علاج کے لیے لاکھوں روپے چاہیے تھے تاہم کسی ترقی یافتہ ملک کے ہسپتال کی طرح پرتعیش پی آئی سی میں یہ آپریشن بالکل مفت، اپنے ہی شہر میں اور ماہرین کی تسلی بخش نگرانی میں ہوا۔
’مجھے فقط 400 روپے خرچ کرنے پڑے، باقی کا خرچہ صحت کارڈ نے برداشت کیا۔ اگر یہ ہسپتال نہ ہوتا تو راولپنڈی یا لاہور جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ بھی اس صورت میں اگر میرے پاس اتنی رقم ہوتی جس سے میں قیام طعام، سفر اور علاج کا خرچہ اٹھا سکتا۔‘
پی آئی سی میں دل کے عارضے میں مبتلا ہر عمر کے مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ہفتے اس کے شعبہ اطفال میں پہلی سرجری کے بعد بچوں کے آپریشنز کا بھی باقاعدہ آغاز ہو گیا۔
پانچ سالہ بریرہ کے دل میں بھی سوارخ تھا جس کا یہاں کامیاب آپریشن ہوا۔
بریرہ کی والدہ خیرالنسا بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے چھ بچوں میں سے دو کے دل میں سوراخ جب کہ چار بچوں کو سینے میں تکلیف کا مسئلہ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا دل میں سوراخ کے عارضے کی وجہ سے چار سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوا جب کہ بیٹی علاج کے آسرے پر کسی مسیحا کی راہ تکتی رہی۔
’میرے شوہر دیہاڑی میں یومیہ پانچ سے چھ سو روپے کماتے ہیں۔ میں بچوں کو سلانے کے بعد کپڑے سینے کا کام کرتی ہوں۔ پھر بھی ہماری اتنی استطاعت نہیں کہ ایک بچے کا معائنہ تک کروا سکیں۔ کہاں لاکھوں روپے کا آپریشن اور وہ بھی کسی اچھے ہسپتال میں۔‘
بچوں کے سرجنوں کی کمی
پی آئی سی میں شعبہ امراض قلب برائے اطفال کے سرجن مبشر زرین خان کے مطابق ہر سال پاکستان میں 80 ہزار بچے امراض قلب کے ساتھ جنم لیتے ہیں تاہم ان میں سے صرف تین سے چار ہزار بچے ہی آپریشن کے عمل سے گزرتے ہیں۔
ڈاکٹر مبشر شعبہ اطفال میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور کراچی کے آغا خان ہسپتال، کینیڈا کے سٹولری ہسپتال اور سعودی عرب میں کنگ فیصل ہسپتال میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ اس ہسپتال کا حصہ بننے کے لیے پشاور واپس منتقل ہوئے کیونکہ اس صوبے میں پہلے ہی امراض قلب میں مبتلا بچوں کے سرجن نہیں کیونکہ طبی ماہرین کی اکثریت مختلف وجوہات کی بنا پر اس جانب آنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
’شاید مجھے آپ پاگل کہیں گے کیونکہ درحقیقت یہ ایک پیچیدہ مہارت ہے اور اس میں زیادہ پیسہ بھی نہیں۔ لیکن مجھے چیلنجز قبول کرنے میں ہی مزہ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی آئی سی میں میری بطور پہلے پیڈیٹریک سرجن (بچوں کے) سرجن کی حیثیت سے تعیناتی کے بعد ہی یہاں بچوں کے آپریشن ہونا شروع ہوئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ امراض قلب کی مختلف اقسام بچوں کو متاثر کرتی ہیں جن میں پیدائشی طور پر دل کی خرابیاں، یا وائرل انفیکشن جو کبھی کبھار دل کو متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں شامل ہیں، جبکہ اکثر بچوں کو جینیاتی سینڈروم کی وجہ سے بھی دل کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر مبشر کا کہنا ہے کہ اچھی خبر یہ ہے کہ وقت کے ساتھ طب اور ٹیکنالوجی میں ترقی نے ماں کے پیٹ میں ہی کئی ایسے امراض کی تشخیص اور علاج کو ممکن بنا دیا ہے۔
’حاملہ خاتون کا اگر بروقت اور متواتر معائنہ ہوتا رہے تو بچوں میں دل کے سوراخ اور دیگر بیماریوں کی تشخیص اور ان کا علاج ماں کے پیٹ میں ہی دوائیوں سے ممکن ہو سکتا ہے۔‘
پی آئی سی سے قبل خیبر پختونخوا میں امراض قلب کے علاج کے لیے علیحدہ ہسپتال موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 150 بیڈز اور چھ آپریشن تھیٹرز پر مشتمل اس ہسپتال کو نہ صرف صوبے کے پہلے کارڈیالوجی ہسپتال کا درجہ حاصل ہے بلکہ اس کو جدید سہولیات اور تقاضوں کے مطابق لیس بھی کیا جارہا ہے۔
ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر (ایم ڈی) پروفیسر شاہکار احمد شاہ نے بتایا کہ پی آئی سی کی ایمرجنسی خدمات سے دل کے امراض سے ہونے والی اموات کی شرح میں کمی لائی جا سکے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی سی اس تگ ودو میں ہے کہ ملک کے دیگر بڑے ہسپتالوں کی طرح یہاں بھی دل کی پیوندکاری کی سہولت مہیا کی جا سکے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور جھگڑا نے پی آئی سی اور صوبے کے دیگر ہسپتالوں میں ’صحت انصاف کارڈ‘ کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ اس پروگرام کے عظیم ثمرات سے نہ صرف شرح اموات میں کمی واقع ہو رہی ہے بلکہ حکومت کے خزانے پر بوجھ بھی کم ہوا ہے۔
’اس منصوبہ سازی سے حکومت کے خزانے پر بوجھ کم ہو گیا ہے کیونکہ اب صوبے کے کُل 900 ارب روپے بجٹ میں سے صرف 20 ارب روپے صحت اور علاج معالجے پر خرچ ہو رہے ہیں۔‘
’شعبہ صحت میں مزید جدت لا رہے ہیں‘
صوبائی وزیر صحت نے بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے پاکستان بھی دنیا کے ان ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑا ہو گیا ہے جہاں عوام کو مفت اعلیٰ طبی سہولیات حاصل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نئے ہسپتالوں کے قیام کی بجائے ہم نے پہلے سے موجود سرکاری اور نجی ہسپتالوں پر ذمہ داری ڈالی ہے۔ اس طرح حکومت کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے نتیجے میں تمام ہسپتالوں میں اپنی کارکردگی مزید بہتر کرنے کا عزم پیدا ہو گیا ہے۔‘
تیمور جھگڑا نے بتایا کہ صحت انصاف کارڈ سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان میں بھی بڑی سوچ رکھنے سے بڑے کام ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت آنے والے دنوں میں صحت انصاف کارڈ میں جگر کی پیوندکاری کے اضافے، فری فنڈڈ انشورنس پروگرام اور سرکاری ملازمین کے صحت الاؤنس میں مزید جدت لانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔