افغانستان میں بظاہر آخری سین چل رہا ہے، پردہ گرنے والا ہے۔ لدھے پھدے مرکزی کردار روانہ ہونے کے لیے تیار ہیں۔ جو کچھ بچا ہے اور جو مستقبل میں آنے والا ہے اور آخری جھٹکا ہم سب کو کئی سالوں تک جھنجوڑتا رہے گا۔
خطے میں غیریقینی حالات اور افغانستان میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے۔ پراکسیوں میں تبدیلی طویل عرصے سے جاری ہے اور مستقبل میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ فوجی، سیاسی، اخلاقی، سماجی اور معاشی شکست کے بہت سے چہرے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو ان سب کو گھور رہے ہیں۔
سب سے اہم بات پک اپ ٹرکوں اور چھوٹے ہتھیاروں سے لیس قبائلی قوت کے ہاتھوں امریکہ کے اخلاقی موقف کی شکست ہے۔ دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے والے نیٹ ورکس کے ساتھ بیٹھ کر امن کی بات کرنا جنگ میں اخلاقیات کے پہلو کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے۔ طالبان کی حاصل نفسیاتی برتری کے بہت سے مضمرات ہیں۔ شاید ان گذشتہ 20 سالوں میں سب سے مناسب سبق طالبان کی جانب سے مقصد کی یکسوئی ہے۔ کسی نظریے کو شکست دینا تقریباً ناممکن ہے جب تک کہ رہنما اس سے غداری نہ کریں۔
پڑوسی ممالک کو اس بات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی کہ متوقع بدامنی کا ممکنہ نتیجہ کیا شکل اختیار کر سکتا ہے۔ لہذا پاکستان کو اس سے پیدا ہونے والے خطرے پر نظر رکھنی چاہیے جو اب تک موجودہ جاری عمل پر۔ مذاکرات اور انخلا کے نظام الاوقات میں زیادہ مصروف دکھائی دیتا ہے۔ وضاحت ہماری تیاری میں مدد کرے گی۔ اس سوال کے جواب کے کئی پہلو ہوں گے لیکن اس کا تعین ضروری ہوگا کہ مغربی قبضے کے خاتمے کے ملبے سے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی میدان میں کابل میں شمالی اتحاد کی حمایت سے ایک حکومت ممکن ہے۔ تاہم شمالی اتحاد کی اپنی دفاعی لائن کابل شہر کو مرکز کے طور پر تصور نہیں کرتی۔ اس کی جغرافیائی لکیر وادی پنجشیر، درہ سالانگ، بدخشاں، بامیان، سرے پل، بلخ، جوزجان، فاریاب اور ہرات پر مشتمل ہے۔ شمالی اتحاد کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کابل طالبان کے قبضے میں آ جائے۔
مشرقی صوبوں نورستان، کنڑ، ننگرہار اور پکتیکا میں داعش خراسان اور پاکستانی طالبان کی پناہ گاہیں ہیں۔ حقانی نیٹ ورک زیادہ تر مشرق میں اثر و رسوخ رکھتا ہے جب کہ وسطی افغانستان کے کابل، غزنی، وردگ، پکتیا اور خوست میں بھی کچھ موجودگی رکھتا ہے۔ طالبان وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں جہاں سرکاری فوجی جانے سے گریز کرتے ہیں۔
اگرچہ دونوں کے درمیان حد بندی موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود کابل اس خیالی لکیر سے بحفاظت دور ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ امریکہ کی کبھی یہ خواہش نہیں تھی کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو کسی اتفاق رائے تک پہنچائے۔ زلمے خلیل زاد نے آغاز سے دھوکے میں رکھا ہے۔ یہ واضح کمزوری امریکہ کے آخر کار 11 ستمبر تک ملک چھوڑنے کے اچانک اعلان سے واضح ہے۔
تازہ پراکسیز کے لیے دوڑ تمام ہمسایہ ممالک کو مصروف رکھے گی۔ چند ہزار امریکی کنٹریکٹرز کا اہم معلومات کے حصول کے لیے پیچھے رہ جانا کھیل کو کافی دلچسپ بنا دیتا ہے۔ خفیہ ایجنڈا یہ واضح کر دیتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن مقصد نہیں بلکہ چین، پاکستان اور سی پیک اصل ہدف ہے۔ ان قوتوں کو پشتون علاقوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف لڑنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ٹی ٹی پی، داعش اور یہاں تک کہ القاعدہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ صدر اشرف غنی، نائب افغان صدر امر اللہ صالح اور محب اللہ محب اس سوچ کے بظاہر حامی ہیں۔
اب ہمارے پاس جو کچھ بچا ہے اس کا ایک خاکہ موجود ہے۔ یہ پیچھے رہ جانے والے امریکی ٹھیکیدار کن علاقوں میں ہوں گے ان کی شناخت کی ضرورت ہے۔ ایسے علاقے ہماری سرحد کے ساتھ نورستان، کنڑ، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا اور زابل کے کچھ علاقے ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے جنوب میں وہ سی پیک کی پیش رفت کو روکنے اور شمال میں پشتون بیلٹ میں مقامی بغاوت کی کوشش کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو طالبان اور حقانی رابطوں کا سہارا لینا پڑسکتا ہے۔
امریکہ افغانستان کو دو دہائیاں قبل اس پر حملے کے مقابلے میں زیادہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے چھوڑے گا۔ اس سے پاکستان کا موقف درست ثابت ہوا ہے۔ امریکہ کو ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصہ قبل طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے تھی۔
کابل کے ارد گرد کی سکیورٹی کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے شومالی پلینز کے کمانڈروں کو دیکھنا ہوگا جو اب تک پنجشیری اور شمالی اتحاد کے ساتھ تھے۔ تاجک، پشتون، عرب نژاد یہ کمانڈر کابل کے درہ سالانگ کے کوتل خیر خانہ سے جبل سراج تک پھیلے ہوئے اپنے علاقوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ چھ سات کمانڈر مزید لڑنا نہیں چاہتے لیکن دباؤ میں ایسا کرسکتے ہیں۔ اس میں کابل کے دفاع کی کنجی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب یہ دروازہ کھولا گیا تو اس سے سقوت کابل اور شمالی اتحاد کی ناکامی کا راستہ کھلے گا۔ اسی طرح کی صورت حال ستمبر 1996 میں دیکھی گئی جب احمد شاہ مسعود بغیر کسی لڑائی کے پیچھے ہوگئے۔ طالبان اور شمالی کمانڈرز کے درمیان معاہدہ سی پیک اور پاکستان میں بدامنی کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
طالبان نے جس طرح کارروائیاں شروع کی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کابل پر قبضہ کرنے کی جلدی میں ہیں۔ جس دن طالبان کو مفت راکٹ، زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل سسٹم یا ملٹی بیرل لانچر ملیں گے حالات بدل سکتے ہیں۔ کابل کی دفاعی فورسز طالبان کے ساتھ لڑائی سے اجتناب کرسکتے ہیں۔
اب تک کی صورت حال میں جو پہلو سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں:
1۔ امریکہ اپنے پیچھے ایک ٹوٹا پھوٹا ماحول چھوڑ کر جائیں گے۔
2۔ ایک جغرافیائی تقسیم قابل دید ہے۔
3۔ پاکستان میں خصوصا خیبرپختونخوا میں سی پیک نشانے پر ہوگا۔
4۔ کابل حکومت اسلام آباد کی اچھی نیت کے باوجود اسے بدنام کرتی رہے گی۔
5۔ ٹی ٹی پی/ داعش اور القاعدہ کے پی اور بلوچستان میں استعمال کی جاسکتی ہے۔ پی ٹی ایم جیسی تحریکیں مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔
6۔ ٹی ٹی پی کو عام معافی کے ذریعے کمزور کرنا محض ایک خواب ہے۔ یہ دوسروں کے اثاثے ہیں۔
8۔ کابل حکومت کی کمزور ہوتی گرفت کا ٹی ٹی پی کی فنڈنگ اور عزم کو متاثر کرسکتی ہے۔
9۔ شمالی اتحاد نے بار بار اسلام آباد کی پیشکش ٹھکرائی ہیں۔ وہ تبدیل نہیں ہوں گے تاہم پاکستان کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیے۔
10۔ پاکستان علاقائی تعاون کی تنظیموں کا جیسے کہ ایس سی او ہے افغانستان میں امن اور تمام نسلوں کی نمائندگی کے لیے استعمال کرے۔
11۔ ایران، بھارت اور روس افغانستان میں اپنی پراکسیز کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ پاکستان کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ خطہ غیریقینی صورت حال کا شکار رہے گا اور پاکستانی پالیسی سازوں کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے اقدامات کرنا چاہیے۔
افغانستان امن عمل پر پاکستان کی مستقل مزاجی، طالبان کے ساتھ مذاکرات پر اس کا بے لاگ اصرار آغاز سے ہی حکومت کی صورت حال کو سمجھنے کی تصدیق کرتی ہے۔ پاکستان نے اپنے حصے سے بڑھ کر قیمت ادا کی ہے۔ پاکستان فوج نے بہادری سے اس دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے۔ اس کی بٹالین دنیا کی کسی دوسری فوج سے زیادہ آپریشنل علاقوں میں فرائض سرانجام دے رہی ہے۔
کیا مفادات ہمیشہ سپریم نہیں ہوتے؟ آنے والا وقت مشکل ہوگا، افغانستان پراکسیز اور غیرسرکاری عناصر کا میدان جنگ بنے کا خطرہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو اب پھر طویل مدتی اہداف کا دوبارہ تعین کرنا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مصنف کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔