امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے فوجیں نکالنے کے متنازع فیصلے سے جنگ کے شکار اس ملک میں طاقت کا توازن ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہا ہے۔
شام طویل عرصے سے بین الاقوامی اور خطے کی طاقتوں کے لیے تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ اس نئی صورتحال میں روسی فوجیں شمالی شام میں ان علاقوں کا رخ کر رہی ہیں جہاں سے امریکی دستے واپس بلا لیے گئے ہیں جبکہ دمشق حکومت کی افواج ان علاقوں کا کنڑول سنبھالنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں جہاں امریکی حمایت یافتہ کُرد فورسز تعینات تھیں۔
واشنگٹن میں خارجہ پالیسی سازوں کے نزدیک خطے کی بدلتی صورت حال روس اور شامی صدر بشار الاسد حکومت کی کامیابی اور امریکہ کے لیے ناکامی ہے۔ تاہم بعض ماہرین کے مطابق شام میں امریکہ کی موجودگی کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی اور امریکہ کو بالآخر وہاں سے نکلنا ہی تھا۔
فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی سے وابستہ سیاسیات کے پروفیسر رابرٹ رابِل کے مطابق روسی صدر ولادمیر پوتن اور شامی صدر بشار الاسد کو فاتح کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے لیکن ترکی کے حملے سے قبل ہی اس کی توقع کی جارہی تھی۔
رابِل نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا: ’وہاں ہماری (امریکہ کی) موجودگی انتہائی کم تھی اور مشرق وسطیٰ کے بارے میں عموماً اور شام کے حوالے سے خاص طور پر ہماری حکمت عملی مبہم رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آج اگر شام میں حکومت کی بات کی جائے تو دماغ میں ولادمیر پوتن اور بشار الاسد کا خیال گونجتا ہے اور ’دمشق اب روس کا سیٹلائٹ درالحکومت ہے۔‘
رابل کا کہنا ہے شام میں جو کچھ ہوا امریکہ اس کو تبدیل نہیں کرسکتا لیکن امریکیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پوتن اور اردوغان کے ساتھ کردوں، مہاجرین اور عسکریت پسندوں کے حوالے سے کوئی جامع معاہدہ کریں۔
وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نائب صدر مائیک پینس اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن کو جلد از جلد انقرہ بھیج رہے ہیں تاکہ لڑائی روکنے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا جاسکے۔
موجودہ صورتحال میں یہ خدشات بھی پیدا ہوئے ہیں کہ امریکہ کے انخلا کے بعد کرد علاقوں میں پیش قدمی کرنے والی شامی افواج کا ترک افواج کے ساتھ تصادم ہو سکتا ہے۔
اس تصادم سے بچا جاسکتا ہے اگر انقرہ کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے پوتن اور اردوغان کچھ سرحدی علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی معاہدے پر پہنچ جائیں اور باقی علاقوں میں شام کے سرکاری دستے تعینات ہوں اور ترک اور شامی افواج کے درمیان روسی فورسز حائل رہیں۔
ماہرین جن کا طویل عرصے سے یہ خیال تھا کہ امریکہ کو شام سے نکل جانا چاہیے وہ ٹرمپ کے انخلا کے فیصلے پر تنقید نہیں کر رہے بلکہ ان کا الزام ہے کہ امریکہ ایک جامع منصوبہ بندی کے بغیر ایسا کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفاعی ماہر اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں منسلک معاون پروفیسر بین فریڈمین نے انخلا کو درست پالیسی قرار دیا، تاہم ان کے نزدیک اس پر انتہائی نااہلیت سے عمل درآمد کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کردوں اور شام کی حکومت کے مابین اب ہونے والا معاہدہ آٹھ ماہ قبل بھی ہو سکتا تھا جب ترکی نے سرحدیں عبور نہیں کی تھیں۔
فریڈمین کے مطابق تب شامی کردوں کو شاید ترکی سے تحفظ فراہم کیا جا سکتا تھا جبکہ داعش کو قابو میں رکھتے ہوئے امریکی انخلا پر بھی عمل درآمد ممکن تھا۔
انہوں نے کہا: ’میں اب بھی انخلا کی حمایت کرتا ہوں لیکن افسوس ہے امریکی پالیسی نے صورت حال کو مزید خراب کردیا۔‘
ٹرمپ اور اوباما دونوں کے لیے کسی واضح مقصد کے بغیر امریکہ کے لیے شام میں رہنا ایک خطرے کی پالیسی ثابت ہوا ہے۔
اوباما نے بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششوں کو محدود کر دیا تھا لیکن پھر بھی شامی باغیوں کی حمایت کی جو کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔
واشنگٹن میں طویل عرصے سے یہ اتفاق رائے رہا ہے کہ امریکہ کو داعش سے لڑتے ہوئے بشار الاسد کو بے دخل کرنے میں بھی مدد کرنی چاہیے، لیکن بشار الاسد کا تخت غیرمتزلزل ثابت ہوا ہے اور امریکی عوام زمینی صورت حال کی پیچیدگیوں سے عاجز آچکے ہیں۔
اب ایسا لگتا ہے صدرٹرمپ داعش کی خلافت ختم کرنے اور امریکی فوج کو نقصان کے راستے سے نکالنے کے لیے ذہن بنا چکے ہیں۔
ایک عام فہم ہے کہ امریکی عوام غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر شام میں فوجیوں کے قیام کی حمایت نہیں کریں گے، خاص طور پر اگر ان کے فوجی ہلاک یا زخمی ہو رہے ہوں۔
بظاہر شام میں لامتناہی جنگ سے نکلنے کے لیے ٹرمپ کی حکمت عملی سوچی سمجھی اور تدبیر کے بغیر نظر آتی ہے تاہم اس سے علاقے میں استحکام کی راہ بھی کھل سکتی ہے۔
© The Independent