امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کو کہا ہے کہ امریکہ اب بھی نہیں جانتا کہ ایران 2015 کے ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد کرنے پر تیار ہے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھی تو ایٹم بم بنانے کے لیے ضروری میٹریل اکٹھا کرنے کی خاطر درکار وقت محض چند ہفتے رہ جائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ ’یہ واضح نہیں ہے کہ ایران ان تمام شرائط پوری کرنے پر رضامند ہے یا نہیں جو ایٹمی معاہدے پر پھر سے عمل پیرا ہونے کے لیے درکار ہیں۔ ایران کا ایٹمی پروگرام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جتنی دیر ایسا ہوتا رہااسے اتنا ہی زیادہ وقت مل جائے گا۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق اس وقت ایٹمی پروگرام رکا ہوا ہے اور بات زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کی ہے، اگر ایرانی ایٹمی پروگرام جاری ہے تو پھر بات چند ہفتوں کی رہ جائے گی۔‘
دوسری جانب ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے ) نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ اس کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کے عارضی معاہدے میں توسیع مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ ایران اور بڑی طاقتیں 2015 کے ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ایران نے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کی جانب سے اپنی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کا کام روک دیا تھا جس کے بعد عالمی ادارے کو تین ماہ کے لیے کارآمد عارضی معاہدہ کرنا پڑا جس کے تحت وہ ایٹمی تنصیبات تک رسائی کی حد میں کمی کے باجود اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رافیئل گروسی نے آسٹریا کے دارالحکومت میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے سہ ماہی اجلاس سے آغاز میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا ہے کہ ’میں دیکھ رہا ہوں کہ صورتحال تنگ ہوتی جا رہی ہے۔‘ مئی کے آخر میں عبوری معاہدے میں 24 جون تک توسیع کی گئی تھی۔ گروسی کا کہنا تھا کہ باقی بچنے والا وقت بہت تھوڑا ہے۔ایٹمی معاہدے کی بحالی کے حوالے سے بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ایک وسیع معاہدے پر جاری معاملات کی تکمیل ہو اور ایرانی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی ہماری صلاحیت محدود نہ رہے۔ گروسی کے بقول ’ہم محدود نہیں ہو سکتے تاہم اس وقت انسپکٹروں کے معائنے کی صلاحیت کو محدود رکھیں گے اور ساتھ ہی یہ ظاہر کریں گے کہ اعتماد کی فضا موجود ہے۔‘
گروسی نے مزید کہا کہ ایران ملک میں موجود ایٹمی تنصیبات میں یورینیئم کے ذرات کی دریافت کے بارے میں سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہا ہے ۔ یہ ایٹمی تنصیبات پہلے خفیہ رکھی گئی تھیں۔ انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ مزید کسی تاخیر کے اس معاملے کا جواب دے۔ انہوں نے کہا کہ ’کئی مہینے بعد بھی ایران نے ان تین مقامات پر ایٹمی مواد کے ذرات کی موجودگی کے بارے میں ضروری وضاحت نہیں کی جہاں ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کو اضافی رسائی دی گئی تھی۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک اور ایٹمی تنصیب کے حوالے سے بھی ایران نے جواب نہیں دیا جس تنصیب کی موجودگی کا اعلان بھی نہیں کیا گیا تھا۔