قدرتی طور پر دو مثانے اور دو نفس کے ساتھ پیدا ہونے والے لاہور کے ایک نوجوان کے والدین بچپن سے ہی شہر کے تمام بڑے ہسپتالوں سے رجوع کر چکے ہیں مگر مکمل علاج نہ ہونے کی وجہ سے اب دل برداشتہ ہوگئے ہیں۔
اس 22 سالہ نوجوان کی زندگی پیدائشی نقص کے باعث ہر وقت پیشاب بہنے سے اجیرن ہوگئی ہے اور معاشرتی رویوں کی وجہ اسے آٹھویں کے بعد سے تعلیم بھی چھوڑنا پڑی۔ یہ پیمپر لگا کر گھر میں ہی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
والدین کے مطابق انہوں نے جائیداد بیچ کر لاکھوں روپے خرچ کر دیے مگر بیٹا صحت یاب نہ ہوا، وہ زندگی سے بھی تنگ ہے اور مایوس ہوکر دو بار خود سوزی کی کوشش کر چکا ہے۔
والد غلام رسول کے مطابق حکومت کی جانب سے جاری کردہ انصاف صحت کارڈ سے بھی علاج کی سہولت حاصل نہ ہوئی جبکہ ڈاکٹروں سے بھی اس کا مستقل حل نہ ہوسکا۔
ماہرین طب کے مطابق یہ مرض دنیا کے60سے 70لاکھ انسانوں میں سے کسی ایک بچے میں پایا جاتا ہے۔ اسے ڈائیفیلیا (Diphallia) کہتے ہیں اور اس کا علاج پاکستان میں اگر کیا بھی جائے تو بڑے پیمانے پر بطور ٹیسٹ کیس مکمل طبی سہولیات اور ماہرین کی ضرورت ہے، کیونکہ ممکنہ طور پر یہ پاکستان کا پہلا ایسا کیس ہے۔
نوجوان کی شناخت ادارہ کی پالیسی کے مطابق راز رکھی جا رہی ہے، تاہم ان کے والد غلام رسول کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کا علاج ہونا چاہیے چاہے ان کا سب کچھ فروخت ہو جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب سے یہ پیدا ہوا ہے ہر چھوٹے بڑے ہسپتال سے رجوع کیا لیکن دو آپریشن ہونے کے باوجود علاج نہیں ہو سکا۔ بیشتر ڈاکٹروں کو سمجھ نہیں آتا اور بعض اسے سنجیدہ ہی نہیں سمجھتے۔ کئی بار ہسپتالوں کے عملے کو مرض بتانے پر وہ ہنسنے لگے۔‘
والد کے مطابق سکول کے بچوں کو پتہ چلا تو انہوں نے بھی مذاق اڑانا شروع کردیا جس کی وجہ سے بیٹے نے تعلیم سے لگاؤ ہونے کے باوجود آٹھیوں جماعت کے بعد سکول چھوڑ دیا، جبکہ رشتہ دار بھی مذاق کرتے ہیں۔
والد کا کہنا تھا کہ حالات سے مایوس ہو کر بیٹا دو بار خود کو جان سے مارنے کی کوشش کر چکا ہے۔
ان کے مطابق: ’انصاف صحت کارڈ بنوایا کہ اس سے بیٹے کا علاج کرائیں گے۔ اسی لیے گھر سے کسی بھی بیمار کے اخراجات اس سے ادا نہیں کیے کہ کہیں رقم نہ کم ہو جائے۔ لیکن جب شریف میڈیکل سٹی چیک اپ کرایا اور انہوں نے ابتدائی خرچ ڈیڑھ لاکھ بتایا تو ہم نے صحت کارڈ دے دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس سے بیٹے کا علاج نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بیماری کارڈ سے علاج کی مجوزہ درجہ بندی میں فعال نہیں کرتی۔ اس دن سے بالکل ہی مایوس ہیں جیسے آخری امید بھی ٹوٹ گئی ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ہر وقت پیشاب نکلنے سے بیٹے کے گردے بھی ضائع ہونے کا خدشہ ہے اور علاج نہ ہونے پر بیٹے کو موت کی طرف جاتے دیکھنے کا درد ایک باپ ہی جانتا ہے۔
والد کے بقول مرض کے بارے میں سکول انمتاثرہ نوجوان کا کہنا ہے کہ پیدائشی لاحق اس بیماری پر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اگر کہیں مجمع میں بیٹھیں تو ہر وقت پیشاب رسنے سے بو پھیلتی ہے اور لوگ دور دور رہتے ہیں اسی لیے وہ گھر سے کم ہی نکلتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مایوسی کے باعث اور والدین کی مشکلات دیکھ کر جینے کی امید ہی باقی نہیں رہی۔
’علاج ممکن ہے ‘
ماہرین طب اسے انوکھا مرض قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا علاج ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر بڑے ہسپتال میں جدید سہولیات اور بڑے ماہرین یورالوجی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
جنرل ہسپتال لاہور کے شعبہ یورالوجی کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد نذیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مرض کو ڈائفیلیا کہتے ہیں جس کے معنی دو مثانے اور دو نفس ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے مطابق یہ مرض دنیا بھر میں 60سے70لاکھ بچوں میں سے ایک کو ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مرض کا آپریشن کے ذریعے علاج تو ممکن ہے مگر ان کے علم میں اس سے پہلے پاکستان میں ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا نہ ہی ایسا مریض سامنے آیا جس کے علاج کی مثال موجود ہو لہذا اسے بطور ٹیسٹ کیس لیا جائے تو علاج کے لیے مختلف ماہرین اور جدید آلات کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ یہی صورت حال دنیا کے دیگر ہسپتالوں کی ہے وہاں بھی اس مرض کا آپریشن معمول نہیں ہوسکتا جن ملکوں میں یہ کیس آئے بھی تو وہاں بھی ٹیسٹ کیس کے طور پرہی لیا گیا ہوگا۔
ڈاکٹر نذیرکے بقول عام طور پر بچوں کی پیدائش پر والدین اور ڈاکٹرز ان میں اس طرح کے امراض کا خیال نہیں کرتے اور عمر بڑھنے پر ایسے مسائل سامنے آتے ہیں پھر علاج کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کیس میں بھی بچپن سے ہی معلوم ہوگیا تھا تو اسی وقت آپریشن ہو جاتا تو شاید مسلسل پیشاب بہنے کو روکا جاسکتا تھا۔
ڈاکٹر کے مطابق کم عمری میں دو مثانوں کو آپریشن سے جوڑ کر ایک کیاجاسکتا تھا اور دو نفس میں سے ایک کو متحرک کر کے ایک کو زائل کرنا بھی قدرے آسان تھا، مگر اب عمر بڑھنے سے آپریشن بھی مشکل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’پھر بھی یہ آپریشن بڑے پیمانے پر کیابھی جائے تو کامیاب یا ناکام ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘