نشانے پہ چین یا مسلمان؟

کہیں عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر مسلمانوں کو جذباتی بلیک میل کر کے انہیں چین کے خلاف استعمال تو نہیں کرنے لگیں جو مسلم بیلٹ میں سب سے بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور جو بظاہر بیشتر مسلم ملکوں کے آڑے وقتوں میں کام آیا ہے۔

برسلز :نیٹو ہیڈکواٹرز میں سربراہان مملکت کے اجلاس کے موقعے پر گروپ تصویر (اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں کلک کرکے سن بھی سکتے ہیں


جی سیون ممالک، نیٹو کے حالیہ اجلاس اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈین کی ملاقات کو یوں تو مغربی میڈیا نے امریکی شبہہ کو بحال کرنے کی نئی کوشش سے تعبیر کیا ہے لیکن اس امیج کے پیچھے کئی اور مقاصد بھی پنہاں نظر آتے ہیں۔

ان کا براہ راست اثر ان ملکوں پر پڑنے والا ہے جو چین کے حلیف ہیں یا اس کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہیں۔

برطانیہ میں سیاسیات کے استاد رؤف سہگل کے مطابق ’مغربی اور نیٹو ممالک کو دوبارہ متحد کر کے امریکہ پھر بڑے بھائی کے روپ میں واپس آنے کے لیے زور لگا رہا ہے مگر نیٹو میں شامل بیشتر ملکوں نے پچھلے چند برسوں میں چین سے اتنے گہرے تجارتی روابط قائم کیے ہیں کہ وہ اس کو توڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

امریکی انتظامیہ اس لیے بھی اعصابی دباؤ کا شکار ہے کہ مسلم ممالک اور چین کے بڑھتے معاہدوں کے پیش نظر کہیں امریکہ عالمی حیثیت سے محروم نہ ہو جائے جس کو چین کی سرمایہ کاری نے کافی کمزور کر دیا ہے۔‘

مبصرین کا خیال ہے کہ روس کو سفارتی دائرے میں واپس لانے کے پیچھے ایک تو اسے چین سے دور رکھنے کی سعی ہے اور دوسرا ایران کو جوہری پروگرام کی توسیع سے روکنا ہے۔ اس میں بھی روس کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

لیکن روس اور چین کے بیچ میں 2020 میں 107 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی جو روسی معیشت کو سنبھالنے میں سازگار ثابت ہوئی ہے۔

جی سیون اجلاس میں یہ بات واضح ہوگئی کہ بائیڈین اگر امریکہ کو واحد سپر پاور کے کردار کو دوبارہ منوانے کی کوشش میں ہیں تو برطانیہ بھی بریگزٹ کے باوجود وہ پوزیشن واپس حاصل کرنے کا خواب سجانے لگا ہے جو اسے سات دہائی پہلے دنیا کے دو تہائی حصے پر حاصل تھی۔

جرمنی اور فرانس کے سربراہان ایک دوسرے کا چہرہ تکتے رہے کیونکہ انگیلا میرکل ویسے ہی سیاست سے فارغ ہو رہی ہیں جبکہ ایمانوئل میکروں کو یورپی اتحاد پہلے سے ہی ٹوٹتا بکھرتا نظر آنے لگا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب اجلاس میں امریکی صدر نے یورپی یونین کے شمالی آئرلینڈ کی سرحدی تجارت کی حد بندیوں پر اعتراضات اٹھائے تو برطانیہ کے لیے یہ شدید حیرانی کا باعث بنا۔ پس پردہ بائیڈین بورس جانسن کو باور کرانا چاہتے تھے کہ امریکہ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا امریکہ بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتا کیونکہ امریکہ کو ہر ملک کی دکھتی رگ کا ادراک ہے۔

سن پچاس کے اوائل میں دنیا دو بلاکوں میں تقسم ہوگئی تھی۔گو کہ یہ سابق سویت یونین اور امریکہ کے بیچ سرد جنگ تھی مگر اس کا سب سے زیادہ خمیازہ مسلمان ملکوں کو اٹھانا پڑا چاہیے یہ ممالک وسطی ایشیا میں روس کے زیر تسلط تھے یا مشرق وسطی کے ایسے بیشتر ممالک تھے جو کیمونزم اور کیپٹلزم کے جال میں پھنس کر کبھی امریکی تو کبھی روسی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے۔

جی سیون یا نیٹو اجلاس کا محور صرف چین تھا اور اس کے سو سے زائد ممالک پر اس کے ڈھائی ہزار سے زائد وہ تجارتی منصوبے تھے کہ جن کی بدولت چین مسلمان ممالک کے قریب آنے لگا ہے۔

وہ چاہیے 2019 میں ترکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد دینی تھی، سعودی عرب کو چند برس پہلے کیے جانے والے 70 ارب ڈالر کے برابر تجارتی معاہدے سے ’ویژن 2030‘ کا حصہ بنانا تھا یا پھر پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے اربوں ڈالر امداد اور سی پیک کے منصوبے میں بھاری سرمایہ کاری ہے یا مارچ میں ایران کے ساتھ تقریباً چار سو ارب ڈالر کا وہ معاہدہ ہے جس میں ایرانی پٹرولیم صعنت کو جدید تر بنانے کا منصوبہ قابل ذکر ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ چاروں مسلم ممالک پوری اسلامی دنیا پر نہ صرف اپنا خاصا اثر رسوخ رکھتے ہیں بلکہ بیشتر چھوٹے مسلم ممالک ان کی مضبوط گرفت میں ہیں اور انہیں اُمّہ کے امیر کارواں کے طور پر تصور کیا جاتا رہا ہے۔

سیاسیات کے استاد رؤف سہگل کہتے ہیں کہ ’مسلمان ملکوں میں چین کے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے امریکہ نے پھر ایک بار مسلمانوں میں جذبات بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے سینکیانگ میں بعض رپورٹوں کے مطابق دس لاکھ سے زائد اویغور مسلمانوں کے بنیادی حقوق چھین کر انہیں حراستی کیمپوں میں بند رکھنے پر اس کی سرزنش کی ہے۔

’لگتا ہے کہ افغانستان میں روسی کمیونزم کے خلاف اسلامی جہاد کے نعرے کی بازگشت اب شاید چین میں سنائی دینے لگے گی حالانکہ افغان ’جہاد‘ کا محض یہ حاصل رہا ہے کہ یہ ملک مختلف دھڑوں میں بکھر چکا ہے، پاکستان کی سالمیت خطرے سے دو چار ہے اور مسلم دنیا فرقوں میں کبھی اتنی منقسم نہ تھی جتنا افغانستان اور عراق میں مغربی طاقتوں کی چڑھائی کے بعد تقسیم ہوئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسلمان حکمرانوں کو تاریخ کے چند اوراق دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دولت عثمانیہ کے خاتمے اور مسلم دنیا کو توڑنے کے لیے تمام مغربی طاقتیں متحد ہوگئیں تھیں۔

جب نہر سوئز کو کنڑول کرنے کے لیے امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ نے متحد ہوکر مصر پر چڑھائی کی تھی اور جب عراق پر جوہری ہتھیار رکھنے کی پاداش میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسلامی مملکت کو بارود سے روندھ ڈالا تھا اور جو سلسلہ اب بھی ختم نہیں ہوا ہے۔

بظاہر اب تک چین نے کسی مسلم ملک پر چڑھائی نہیں کی اور نہ مغربی طاقتوں کے مسلم مخالف عزائم کا حصہ بنا ہے لیکن اگر امریکہ اور مغربی ملکوں کے نئے منصوبے Build Back Better World (B3W) Partnership کا مقصد یہ ہے کہ سینکیانگ کا مسئلہ اٹھا کر چین کے خلاف مسلم دنیا کو بھڑکائیں یا افغانستان کے بعد کسی اور ملک کو بنیاد بنا کر ایک اور اسلامی ’جہاد‘ کا نعرہ بلند کرے تو مسلمانوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ کیا انہیں مغربی ملکوں کی چین کے خلاف نئی سرد جنگ میں شامل ہونا چاہیے؟

اس بات پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ فلسطین یا کشمیر میں انسانی حقوق کی جو پامالیاں ہو رہی ہیں ان پر امریکہ اور مغربی ملکوں کی خاموشی برقرار ہے مگر چین کے مسلمانوں سے اچانک ہمدردی کا جذبہ امڈ کیوں پڑا ہے؟

کہیں یہ طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر پھر مسلمانوں کا جذباتی بلیک میل کر کے انہیں اس ملک کے خلاف استعمال تو نہیں کرنے لگیں ہیں جو مسلم بیلٹ میں سب سے بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور جو بظاہر بیشتر مسلم ملکوں کے آڑے وقتوں میں کام آیا ہے۔

مسلم ممالک کی او آئی سی، عرب لیگ، جی سی سی جیسی کئی تنظیمیں قائم ہیں جن کو چاہیے کہ کسی کے بہکاوے میں آنے کی بجائے سینکیانگ کے مسئلے پر چین سے براہ راست بات کریں، اس خطے تک رسائی حاصل کریں اور وہاں مسلمانوں کے ساتھ تعلق قائم کر کے حقیقی صورت حال کا پتہ لگائیں۔

مسلمانوں کو کسی کی جنگ لڑنے یا کسی ملک کو اڈے فراہم کرنے کی بجائے خود اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا تاکہ چین اور مسلم دنیا کے بیچ پیدا کی جانے والی غلط فہمی کو دور کرنے اور چین کے خلاف کسی کی سازش کا حصہ بننے سے گریز کیا جاسکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ