لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں کرونا وائرس کے علاج کے دوران ہلاک ہونے والے ایک مریض کے لواحقین نے دعویٰ کیا ہے کہ 18 روزہ علاج کے دوران روم رینٹ، آئی سی یو، ادویات، ٹیسٹ وغیرہ پر ان کے 29 لاکھ روپے خرچ ہو گئے۔
لاہور کے رہائشی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقامی رہنما چوہدری ظہیر احمد کرونا وائرس کا شکار ہوئے تو انہیں 20 مئی کو حمید لطیف ہسپتال میں داخل کرایا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے اور سات جون کو ان کا انتقال ہو گیا۔
چوہدری ظہیر احمد کے بیٹے ارسلان ظہیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے والد حمید لطیف ہسپتال میں 18 دن تک زیر علاج رہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہسپتال انتظامیہ نے ’بہتر علاج کی خاطر‘ ان سے مریض کو ایگزیکٹیو روم میں داخل کرانے کو کہا مگر ’ہمیں معلوم نہیں تھا یہاں غیر ضروری طور پر کُل اخراجات 29 لاکھ روپے تک پہنچ جائیں گے۔‘
ارسلان کے مطابق روم رینٹ اور آئی سی یو کے چارجز یومیہ 17 سے 47 ہزار روپے تک وصول کیے گئے، جس کے علاوہ آئی سی یو میں استعمال ہونے والی ادویات اور اشیا پر بھی خطیر خرچہ ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہسپتال کے اندر فارمیسی اور لیبارٹری سے کرائے گئے ٹیسٹ اور ادویات کی مد میں لاکھوں روپے علیحدہ وصول کیے گئے۔
’کبھی ہمیں کہا جاتا کہ دو لاکھ روپے جمع کرائیں اور کبھی چار لاکھ روپے، جو ہم کراتے رہے تاکہ والد کی زندگی بچ سکے۔ انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ اس دوران آٹھ ڈاکٹروں کے وزٹ کی فیسیں الگ سے وصول کی گئیں جو آتے اور نظر مار کر چلے جاتے تھے۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ وینٹی لیٹر پر مریض کا فزیوتھراپیسٹ سے روزانہ معائنہ کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ جن کا کُل بل 77 ہزار پانچ سو روپے بنا۔
’اسی طرح معائنے کے لیے روزانہ 100 گلوز کا ایک ڈبہ منگوایا گیا جو پورے استعمال بھی نہ ہوئے۔ اسی طرح کرونا مریض کا جب آپریشن ہی نہیں ہونا تو سرجری کے ماہر ڈاکٹر کے بار بار معائنوں کی ضرورت کیسے پڑتی رہی؟‘
ارسلان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کئی بار ہسپتال انتظامیہ سے بات کی، جس پر انہوں نے مریض کو مبینہ طور پر وینٹی لیٹر سے ہٹانے کی دھمکی دی۔
’ہم مجبوری میں خاموش ہو گئے، سمجھ سب کچھ آتا رہا لیکن والد کی زندگی کے لیے خاموش رہے۔ ڈاکٹروں کی بات پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بالآخر 18 ویں دن جب ان کے والد کی وفات ہو گئی تو انتظامیہ نے تمام بل کلیئر کرانے کے بعد لاش حوالے کی۔
ارسلان نے کہا کہ وہ اب اس لیے یہ معاملہ اٹھانے کو تیار ہوئے تاکہ باقی مریضوں کے لواحیقن کے ساتھ ’ظلم نہ ہو۔‘
حمید لطیف ہسپتال کے ترجمان تنویر رانا نے ان الزامات کے جواب میں واضح کیا کہ ہسپتال میں پانچ سو بیڈ ہیں اور 40 پرائیویٹ کمرے، جن میں ایگزیکٹیو روم شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وارڈز میں صرف 10 روپے کی پرچی سے مفت علاج کی سہولت موجود ہے۔ ’ہم سالانہ پانچ سے چھ لاکھ مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔‘
تنویر کے مطابق مریض کے ورثا کی مرضی پر پرائیویٹ روم فراہم کیا جاتا ہے تو اس کے اخراجات بھی اسی لحاظ سے وصول کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ روم کا یومیہ کرایہ 17 ہزار روپے تک ہوتا ہے جو پہلے ہی ورثا کو بتا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح آئی سی یو کا یومیہ رینٹ ہوتا ہے جس میں معائنہ کرنے والے ڈاکٹروں کی فیس، ادویات اور ٹیسٹوں کی فیس الگ سے شامل ہوتی ہے۔
انہوں نے دعوٰی کیا کہ ایگزیکٹیو کمروں سے حاصل اخراجات سے غریب مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے اور ہسپتال کے اخراجات بھی نکالے جاتے ہیں کیونکہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو سرکاری گرانٹ نہیں ملتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تنویز کے مطابق چوہدری ظہیر نامی مریض کے لواحقین کو اگر زائد وصولیوں پر اعتراض تھا تو وہ اپنے مریض کو کہیں اور منتقل کر سکتے تھے کیونکہ یہاں زبردستی کسی کو داخل نہیں کیا جاتا اور نہ کسی کو ایگزیکٹیو روم لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
’شکایت موصول ہونے پر انکوائری ہوتی ہے‘
اس معاملے پر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے ترجمان عامر وقاص نے بتایا کہ لاہور سمیت پنجاب میں جتنے بھی نجی ہسپتال ہیں انہیں درجہ بندیوں کے لحاظ سے رجسٹر کیا جاتا ہے جس کے مطابق ان کی فیسوں کا تعین ہوتا ہے۔
’اگر کوئی ہسپتال طے شدہ اخراجات سے زائد وصول کرتا ہے تو متاثرین ہمیں درخواست دیتے ہیں، جس پر ہم معاملے کی مکمل انکوائری کے لیے ٹیم تشکیل دیتے ہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ جس نوعیت کا معاملہ ہو اسی نوعیت کے افسران پر مشتمل ٹیم چھان بین کے بعد رپورٹ دیتی ہے اور اس کے بعد خلاف ورزی کے لحاظ سے کارروائی تجویز کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر کوئی ہسپتال مریضوں سے طے شدہ اخراجات سے زائد وصول کرتا ہے یا کسی مریض کے علاج میں غفلت برتی جاتی ہے یا اسے تنگ کیا جاتا ہے تو شکایت موصول ہونے کے بعد انکوائری میں الزام ثابت ہونے پر جرمانے کی سزا دی جاتی ہے جس کی حد زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ روپے تک مقررہے۔
’اگر سنگین الزام ثابت ہو جائے، جیسے شجاع آباد میں لئیق رفیق ہسپتال میں کئی مریضوں کی آنکھوں کا آپریشن کر کے آنکھیں ضائع کی گئیں تو اسے سیل کر دیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ معمول کے مطابق ہسپتالوں کو سیل کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے کہ وہاں مریض زیر علاج ہوتے ہیں، ہسپتال بند ہونے سے انسانی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ تاہم زیادہ ترقانون میں رکھے گئے جرمانوں کی سزا دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مذکورہ مدیض کے لواحقین درخواست دیتے ہیں تو حمید لطیف ہسپتال کے خلاف بھی انکوائری کے بعد کارروائی کی جا سکتی ہے۔