پاکستان اور افغانستان کے شہروں سے لے کر بیابانوں اور پہاڑوں تک گونجنے والی ایک آواز جس نے چار دہائیوں تک لوگوں کو اپنے وطن سے محبت اور جنگ سے نفرت کا پیغام پہنچایا، اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے۔
سرحد کے دونوں پار یکساں معروف گلوکار اور پشتو موسیقی کے درخشاں ستارے عبداللہ مقری طویل علالت کے بعد اتوار کو کابل کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔
عبداللہ مقری گذشتہ چند دنوں سے شدید علیل تھے۔ 16 جون کو ان کی موت کی اطلاع سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تاہم ان کے بیٹے میر خان نے، جو خود بھی گلوکار ہیں، اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کی طبیعت خراب ہے اور وہ وینٹی لیٹر پر ہیں۔
میر خان نے آج اپنے فیس پیج پر ایک پوسٹ میں اپنے والد عبداللہ مقری کے انتقال کی خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’ملک کی مشہور شخصیت اور نامور فن کار اور میرے والد عبداللہ مقری اس دنیا میں نہیں رہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’یہ غم بہت گراں ہے۔ والد کی رحلت نے میری کمر توڑ دی ہے۔ وہ میرے ہیرو اور سر کا تاج ہیں۔ وہ اپنی غریب قوم کے درد کی آواز تھے۔‘
اے میرے جنت کے مانند گھر
نہ تجھے کسی نے بنایا اور نہ
کسی نے تجھےآباد کیا
اے میرے وطن
تجھے ہرکسی نے
اپنے حصے کا برباد کیا ہے۔
(عبداللہ مقری کے ایک پشتو گانے کے اشعار کا ترجمہ)
عبداللہ مقری کا تعلق افغانستان کے علاقے مقر سے تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ مقری لکھا کرتے تھے۔
پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر اور پشتو ادب پر کام کرنے والے ادیب اور لکھاری لیاقت تاباں کہتے ہیں کہ اگر پشتو موسیقی کا کہیں بھی ذکر ہوگا تو وہ عبداللہ مقری کے بغیر نامکمل ہوگا۔
ڈاکٹر لیاقت تاباں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عبداللہ مقری کے حوالے سے بتایا کہ وہ 40 سال تک پشتون قوم کو اپنی گلوکاری کے ذریعے وطن اور امن سے محبت اور جنگ سے نفرت کا درس دیتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ عبداللہ مقری جوانی سے ہی موسیقی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ پہلے شاعری اور بعد میں گلوکاری کی طرف راغب ہوئے۔ پہلے پہل کابل ریڈیو سے ان کے فنی سفر کا آغاز ہوا اور پھر بعد میں وہ ٹیلی ویژن کی طرف چلے گئے۔
ڈاکٹر لیاقت کے بقول: ’جب وہ اپنے عروج کی طرف بڑھ رہے تھے تو افغانستان میں انقلاب آ گیا جس کی وجہ سے افغانستان میں موسیقی سمیت بہت سی چیزیں تہس نہس ہو گئیں۔‘
اس انقلاب کے منفی اثرات کے باوجود عبداللہ مقری واحد گلوکار تھے، جنہوں نے 40 سال تک امن و آتشی کی آواز کو عوام تک پہنچایا۔
عبداللہ مقری کی انفرادیت
عبداللہ مقری ابتدا میں انتہائی سادہ زبان میں شعر کہتے تھے۔ پھر انہوں نے اسی شاعری کو گانا شروع کیا اور اسی طرح وہ پوری زندگی شعر کہتے اور اسی کو گاتے رہے۔
ڈاکٹر لیاقت بتاتے ہیں کہ ان کی موسیقی کی ابتدا لوک داستان سے ہوئی، جس کے بعد انہوں نے ملی ترانے گانے شروع کیے اور بعد میں وہ کلاسیکل موسیقی کی طرف آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’ان کی خوبی یا خاصیت یہ تھی کہ یہ شاعری بھی خود کرتے تھے۔ بعد میں اسی کو موسیقی دیتے اور گاتے تھے۔ ان کی شاعری اور گانے انتہائی آسان زبان میں ہیں، جو اپنی دل کی بات کو عوام تک آسانی سے پہنچا دیتے تھے۔‘
’اپنی شاعری اور گلوکاری میں انہوں نے پیغام دیا کہ ملک کو دوسروں کے شر سے بچالو، ظلم کے خلاف کھڑے ہوجاؤ، یہ جو جنگ آپ لڑ رہے ہو، یہ دوسروں کی لڑائی ہے۔ اپنے باغوں کو مت اجاڑو، میوزیم تباہ مت کرو۔ زندگی امن اور موسیقی میں ہے۔‘
ڈاکٹر تاباں کے مطابق: ’اپنی گلوکاری اور وطن سے محبت کی پاداش میں انہیں افغانستان سے ہجرت کرنی پڑی۔ وہ پاکستان آئے، یہاں کوئٹہ میں رہے اور در در کی ٹھوکریں کھائیں۔ بعد میں جب افغانستان کے حالات بہتر ہوئے تو سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور میں وہ واپس کابل چلے گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کابل میں ایک بار جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ وہ آخری سانس تک لوگوں تک موسیقی پہنچاتے رہیں گے۔
عبداللہ مقری نے کتنے گانے گائے؟
ڈاکٹر لیاقت کہتے ہیں کہ ان کے ملی ترانے سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ کوئی ایسا پشتون گھرانا نہیں جو عبداللہ مقری سے واقف نہ ہو۔
لیاقت تاباں کے بقول: ’عبداللہ مقری تعلیم یافتہ تھے۔ اپنے دوست اور دشمن کی پہچان رکھتے تھے۔ اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور سیاست سے واقفیت رکھتے تھے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’عبداللہ مقری انتہائی نفیس انسان تھے۔ گلوکاروں کی انتہائی عزت کرتے تھے۔ کوئی ملنے آتا تو احتراماً اس کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ وہ بہت مہمان نواز تھے۔‘
ڈاکٹر لیاقت کے مطابق: ’میں نے دیکھا کہ وہ انتہائی حساس بھی تھے۔ حالات اور واقعات پر سوچتے تھے، جسے بعد میں وہ شاعری میں ڈھال کر موسیقی کا روپ دیتے تھے۔‘
شاعری کے اثرات
افغانستان کے حالات میں ایک عرصے سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ کبھی وہاں جنگ اور کبھی امن کی باتیں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر لیاقت کہتے ہیں کہ وہ بچپن سے عبداللہ مقری کے شیدائی رہے ہیں اور ان کے گانے سنتے آرہے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’جب ہمیں کبھی افغانستان کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا ہوتی تو ہم عبداللہ مقری کے نئے گانوں کے آڈیو کیسٹ کا انتظار کرتے تھے، جس سے ہمیں وہاں کے حالات اور اس وقت کی صورت حال سے واقفیت مل جاتی۔ ہم نے بہت کچھ ان کے گانوں سے سیکھا ہے۔‘
بقول لیاقت تاباں: ’ان کے گانوں سے ہمیں یہ تعلیم ملتی رہی کہ افغانستان میں کون ڈالر بیچ رہا ہے اور ’ملا‘ کیا کررہے ہیں۔‘
کیا وہ مایوسی کا شکار ہو گئے تھے؟
عبداللہ مقری نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’میں نے چار دہائیوں تک افغان قوم کو نصیحت کی اور ان کو وطن سے محبت کا درس دیا لیکن انہوں نے مجھے اتنی پذیرائی نہیں دی۔‘
ڈاکٹر لیاقت کہتے ہیں کہ جب کسی ملک میں افغانستان جیسے حالات پیدا ہو جائیں تو کوئی بھی شخص مایوسی کا شکار ہوسکتا ہے۔
عبداللہ مقری کے چاہنے والے کہتے ہیں کہ گو کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن وطن سے محبت کا پیغام لیے ان کے نغمے تاحیات ان کی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے۔