زمانہ طالب علمی سے متحرک رہنے والے قوم پرست رہنما اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اہم رہنما عثمان خان کاکڑ ایک حادثے میں زخمی ہونے کے نتیجے میں چند دن کوئٹہ اور بعد میں کراچی کے ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد چل بسے۔
ان کی وفات کی تصدیق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما رضا محمد رضا اور یوسف کاکڑ نے پیر کو کراچی میں کارکنوں سے بات چیت کرتے ہوئے کی۔
عثمان کاکڑ 17 جون کو اپنے گھر میں گر کر زخمی ہوئے تھے اور ان کے سر پر چوٹ لگی تھی، جس کے بعد انہیں کوئٹہ کے ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کے سر کا آپریشن بھی ہوا۔ بعد میں انہیں 19 جون کو کوئٹہ سے کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ تین تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد آج چل بسے۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رہنما رضا محمد رضا نے اور رحیم زیارتوال نے کارکنوں سے سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان پر حملہ ہوا ہے جس کی وہ تحقیقات کریں گے۔
واضح رہے کہ عثمان کاکڑ نے سینیٹ میں اپنے آخری خطاب میں کہا تھا کہ ’مجھے اور میرے گھر والوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔‘
’بے باک نڈر رہنما‘
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور سنیٹر انوارالحق کاکڑ نے عثمان کاکڑ کی رحلت پر کہا کہ یہ بہت بڑا نقصان ہے اور ان کے موقف سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کے چاہنے والے بہت سے تھے۔
انوارالحق کاکڑ نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے ان کو سینیٹ میں ایک بے باک نڈر رہنما کے طور پر پایا۔ بہت سے لوگ ان سے اختلاف رکھتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اس اختلاف کو ذاتی عناد کی وجہ نہیں بنایا۔‘
انہوں نے کہا: ’میں نے ان کو ایک باکردار شخص پایا اور کبھی کسی سکینڈل میں ان کا نام نہیں آیا، سیاست کے میدان میں یہ ایک مشکل کام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ان کو دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان جیسے سیاستدان سامنے آنے میں ایک عرصہ لگتا ہے، یہ دنوں میں نہیں بنتے۔‘
بقول انوار الحق عثمان کاکڑ لوگوں کے ساتھ بڑی ملنساری کے ساتھ پیش آتے تھے اور لوگوں میں بہت قابل قبول شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔
انوار الحق نے بتایا کہ ’الگ پارٹیوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمارے درمیان ایک دوسرا رشتہ بھی تھا۔ عثمان پشتو کلاسیکی موسیقی سے لگاؤ رکھتے تھے اورجب بھی میرے پاس موسیقی کے حوالے سے کوئی نئی چیز آتی، تو میں انہیں بھیج دیتا۔ وہ میرے بہت شکرگزار ہوتے تھے۔ ہمارے درمیان پشتو موسیقی نےایک الگ سا تعلق بنا دیا تھا۔ ‘
عثمان کاکڑ ایک کارکن کی نظر میں
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک کارکن عبدالرزاق ملاخیل نے بتایا کہ عثمان واحد شخصیت تھے کہ ان کے سامنے کوئی بھی مسئلہ پیش کرنے میں کبھی دقت نہیں ہوتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رزاق نے بتایا: ’بحیثیت کارکن ہمیں کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ عثمان کاکڑ سے ملنا مشکل ہے حالانکہ وہ پارٹی کے اہم رہنما تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ کارکنوں کی تربیت کرتے اور گھنٹوں گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھ کران کی باتیں اور تجاویز سنتے تھے۔ ’پشتوںخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن یا کسی اور جماعت کے کارکن ہونے کے باوجود وہ بلاروک ٹوک عثمان کاکڑ سے ملاقات کرسکتے تھے، یہ بات کسی اور رہنما میں کم ہی ملتی ہے۔‘
بقول عبدالرزاق: ’عثمان کاکڑ انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے اور اگر کبھی ان کی ضرورت ہوتی تو وہ خود بھی کارکنوں کےساتھ چلے جاتے۔‘
عثمان کاکڑ کا سیاسی سفر
عثمان کاکڑ مسلم باغ میں سردار عبدالقیوم خان سرگڑھ کے ہاں1961 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لا کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی کر رکھا تھا۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ نے 1977 میں پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے سیاست شروع کی اور تنظیم کے مرکزی سیکرٹری منتخب ہوئے۔
وہ زمانہ طالب علمی سے انتہائی محترک سیاسی کارکن رہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی سیاست میں شامل ہوئے۔
انہوں نے 2002 میں بلوچستان اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابات میں حصہ لیا، لیکن کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
عثمان کاکڑ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے صوبائی کنوینئر بھی رہے۔ وہ مارچ 2015 سے مارچ 2021 تک سینیٹر کے عہدے پر موجود تھے۔ انہوں نے سینیٹ کے ایوان میں نہ صرف پشتون قوم بلکہ بلوچستان میں ہونے والی نااںصافیوں اور بلوچ نوجوانوں کے ماورائےعدالت قتل کے خلاف بھی آواز بلند کی۔
عثمان کاکڑ کے انتقال پر سابق صدر آصف زرداری، چیئرمین سینیٹ میرصادق سنجرانی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی سمیت دیگر رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک ایک بڑے سیاسی اور سماجی رہنما سے محروم ہوگیا۔