سندھ میں تمام سی این جی سٹیشنوں پر سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) کی جانب سے 176 گھنٹوں کے لیے گیس کی فراہمی پر پابندی لگا دی گئی ہے، جس کا اطلاق 22 جون کی رات 12 بجے سے شروع ہوا اور 29 جون کی صبح تک جاری رہے گا۔
تاہم آل پاکستان پیٹرولیم اور سی این جی ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مرکزی رکن سمیر نجم الحسین کا کہنا ہے کہ یہ بندش غیر معینہ مدت کے لیے ہے اور سندھ میں گیس کا بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
صوبہ سندھ پاکستان میں سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا صوبہ ہے، جو ملک کی مجموعی گیس پیداوار کا 70 فیصد پیدا کرتا ہے جبکہ صوبے میں صرف 45 فیصد گیس ہی استعمال ہوتی ہے۔ اس کے باوجود سندھ کو قدرتی گیس اور سی این جی کی شدید قلت کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے صنعتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد، ٹرانسپورٹرز اور دیگر کمرشل و گھریلو صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے سوئی سدرن گیس کمپنی کے شعبہ مواصلات کے نمائندے شہباز اسلام نے بتایا: ’سندھ کے شہر ٹنڈو الہیار میں کنڑپساکی فیلڈ سے ہمیں گیس کی فراہمی میں قلت کا سامنا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے ہمیں 70 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی کا سامنا تھا اور آج سے مزید 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کم ہوجائے گی، جس کے بعد ہمارے سسٹم میں کل 170 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کا شارٹ فال ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ کنڑپساکی فیلڈ میں سالانہ مرمت و بحالی کا کام ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم نے سی این جی سٹیشنز اس لیے بند کیے ہیں کیوں کہ ہماری اولین ترجیح گھریلو اور کمرشل صارفین ہیں تاکہ ہم کم از کم گھروں میں تو گیس پہنچا سکیں۔ گیس کی قلت صرف سندھ میں نہیں بلکہ پنجاب میں بھی ہے، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ گیس پیدا کرنے والے صوبے سندھ میں ہی سب سے زیادہ گیس کی قلت ہوتی ہے۔ حکومت نے باقی صوبوں کی طرح سندھ کے لیے بھی ایک خاص مقدار کی گیس مختص کی ہوئی ہے اور اگر اس میں کمی آتی ہے تو وہ حکومت کا معاملہ ہے۔‘
شہباز اسلام کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی ایک ترجیحی فہرست کے مطابق ایسی صورت حال میں گیس کی فراہمی کے لیے گھریلو اور کمرشل صارفین سب سے اوپر جب کہ سی این جی سٹیشنز سب سے آخر میں آتے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے آل پاکستان پیٹرولیم اور سی این جی ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مرکزی رکن سمیر نجم الحسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ایس ایس جی سی حکام کی جانب سے ہمیں کہا گیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ 29 جون کو ہی سی این جی سٹیشنز بحال ہوجائیں۔ یہ سراسر نااہلی اور بد انتظامی کا کیس ہے۔ ان کی کنڑپساکی فلیڈ کی اس وقت سالانہ مرمت ہو رہی ہے اور ساتھ ہی حکومت ایل این جی کا اینگرو ٹرمینل بند کرنے جارہی ہے، جس کے حوالے سے وزارت توانائی کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک میں گیس کا شدید بحران آسکتا ہے۔ انہیں چاہیے تھا کے دونوں چیزوں کے لیے صحیح طرح ٹائم مقرر کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
دوسری جانب آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے رکن غیاث پراچہ کے مطابق گیس کی تقسیم کا نظام بہتر ہونا اور اس کی وقت پر درآمد ہونا انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ ’جب بھی گیس کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے حکومت اس کی بندش کا اعلان کر دیتی ہے، جب کہ حکومت کو مارچ، اپریل یا ستمبر، اکتوبر کے مہینوں میں گیس کی بندش کرنی چاہیے کیونکہ ان مہینوں میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی اور گیس کا استعمال کم ہوجاتا ہے۔ اس وقت جب گیس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، یہ گیس بند کرکے لوگوں کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’گذشتہ برس سوئی سدرن کمپنی نے ہمیں یہ کہہ کر سی این جی چھوڑ کر آر ایل این جی پر منتقل ہونے کا کہا کہ جب آپ اس پر منتقل ہوں گے تو ہم وفاقی حکومت سے کہہ کر آپ کے لیے ایل این جی کی ایلوکیشن کروائیں گے۔ ہم جب آر ایل این جی پر منتقل ہو گئے تو حکومت نے اس پر 17 فیصد ڈیوٹی اور ٹیکس اور بڑھا دیے، جس سے گیس مہنگی ہوگئی۔‘
’دوسری جانب حکومت نے یہ بھی کہا کہ سی این جی سیکٹر اپنی گیس خود منگوائے تاکہ حکومت پر بوچھ نہ پڑے اور وہ پیٹرول کمپنیوں کا کاروبار میں مقابلہ کرسکے۔ حکومت نے کہا کہ جس دوران آپ اپنی ایل این جی منگوائیں گے ہم آپ کو اپنی آر ایل این جی دیں گے لیکن ہمارے تعاون کے باوجود حکومت نے اس کی رسائی بند کردی اور جب گیس کمپنیوں سے ہمیں ایل این جی درآمد کرنی ہے تو وہ ہماری حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی، اس لیے ہم بیچ میں پھنس گئے ہیں اور لگتا یہ ہے کہ موجودہ گیس بندش بھی سات جولائی سے پہلے نہیں کھلے گی۔‘
سی این جی اور ایل این جی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
سی این جی اور ایل این جی ایک جیسی گیسیں ہیں لیکن ان کی فراہمی اور ذخیرہ کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔ سی این جی کو ری فل کرنا (دوبارہ بھرنا) آسان ہے جبکہ ایل این جی کے لیے خصوصی ہینڈلنگ اور آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ گاڑیوں میں استعمال کرنے کے لیے سی این جی ایک محفوظ انتخاب بھی ہے۔
ایل این جی کو مائع شکل میں تبدیل کرنے کے لیے انتہائی کم درجہ حرارت پر فریز کیا جاتا ہے جبکہ سی این جی پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تاوقتیکہ یہ بالکل کمپیکٹ نہ ہوجائے۔ ایل این جی، سی این جی کے مقابلے میں سٹوریج کی کم جگہ لیتی ہے۔ مناسب طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ایل این جی کو سی این جی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، اس لیے عام طور پر دوسرے ممالک سے ایل این جی ہی درآمد کی جاتی ہے اور پھر اسے مقامی پلانٹس کے ذریعے سی این جی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کی ویب سائٹ کے مطابق مائع ایندھن یعنی لیکوڈ فیول کے مقابلے میں ایل این جی زیادہ موثر ہے۔ اس کی دیکھ بھال میں کم اخراجات خرچ ہوتے ہیں، اس کی نقل و حمل میں آسانی ہوتی ہے اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ کے مسائل کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ ویب سائٹ کے مطابق: ’پاکستان میں فرنس آئل کے استعمال میں کمی، تھرمل جنریشن پلانٹس کی استعداد کار کو بہتر بنانے اور اس کی لاگت کو کم کرنے کے لیے ایل این جی کی درآمد ضروری ہے۔ ایل این جی واضح طور پر سب سے زیادہ قابل عمل ہے اور پاکستان کی توانائی کی ضروریات کا سب سے تیز رفتار حل ہے۔‘
پاکستان قدرتی گیس کی کھپت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کا ملک میں توانائی کی فراہمی میں مجموعی طور پر 51 فیصد حصہ ہے، تاہم ملک کے گیس کے ذخائر سال 2000 سے کم ہو رہے ہیں۔ 2004 میں پہلی بار پاکستان کو متبادل توانائی کے وسائل مہیا کرنے کی حکمت عملی مرتب کی گئی اور ملک میں ایل این جی لانے کے لئے متعدد کوششیں کی گئیں۔
اپریل 2014 میں پاکستان میں ایل این جی کی درآمد کے حوالے سے ایک اہم قدم اٹھایا گیا، جب ایس ایس جی سی اور الینگی ٹرمینل پاکستان لمیٹڈ (ای ٹی پی ایل) نے ایل این جی سروسز معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت کراچی کے پورٹ قاسم میں ایل این جی درآمد ٹرمینل کی تعمیر کا راستہ ہموار ہوا تھا۔ 335 دن کی مدت میں اس نوعیت کا یہ پہلا ٹرمینل بنا تھا جو 600 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی تک دوبارہ گیسیفیکیشن کی گنجائش رکھتا ہے۔
تاہم حال ہی میں یہ فیصلہ ہوا کہ نجی کمپنیوں کو رواں سال اپریل تک اپنی پسند کے صارفین کو ایل این جی لانے اور فروخت کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس سلسلے میں رواں سال فروری میں کابینہ نے ایل این جی کی درآمد اور مارکیٹنگ کے لیے نجی شعبے کو تین ماہ کی رولنگ کی بنیاد پر ایل این جی ٹرمینل اور پائپ لائن کی گنجائش مختص کرنے منظوری بھی دے دی تھی۔
تاہم کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی کی منظوری کے بعد ہی نجی سی این جی کمپنیز ایل این جی درآمد کر پائیں گی۔ فی الحال حکومت کی جانب سے دی جانے والی سی این جی کی سپلائی کو روک دیا گیا ہے اور جب تک یہ نہیں کھلے گی، سی این جی سٹیشنز بند رہیں گے۔