پاکستان کی حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردوں کو رقوم کی ترسیل اور منی لانڈرنگ کے خلاف دو الگ ایکشن پلانز پر عمل درآمد تک مزید وقت کے لیے گرے لسٹ میں رکھنے کے فیصلے پر ہفتے کو سوال اٹھایا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نشاندہی کی کہ ایف اے ٹی ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے اپنا مالیاتی نظام مضبوط بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں 27 نکات پر مشتمل جو ایکشن پلان تیار کیا گیا تھا، اس کے باقی ماندہ نکات پر کام جاری ہے اور پاکستان ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے گا۔
ایک بیان میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا: ’میرا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ آیا ایف اے ٹی ایف کوئی تکنیکی فورم ہے۔۔۔ یا اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے فنڈ کی ترسیل روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان کو عالمی ادارے کی اُس گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا جس میں ان ممالک کو رکھا جاتا ہے جہاں مالیاتی نظام کمزور ہو، اس کے غلط استعمال کا امکان ہو اور دہشت گرد گروپ اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر اس سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر ڈاکٹر مارکس پلیئر نے جمعے کو آن لائن ہونے والی پریس کانفرنس میں تسلیم کیا تھا کہ اسلام آباد نے ’نمایاں پیشرفت‘ کی ہے اور ایجنڈے میں شامل 27 نکات میں سے 26 پر بہت کام کیا ہے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ایجنڈے کے آخری نکتے پر اب بھی کام کی ضرورت ہے جو ’اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروپوں کے سینیئر رہنماؤں اور کمانڈروں کے خلاف تحقیقات اور ان پر مقدمات چلانے‘ سے متعلق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ابتدائی 27 نکات کے ساتھ سات نکات پر مشتمل ایک اضافی ایکشن پلان بھی دیا ہے، جس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
اس معاملے پر اسلام آباد میں سینیئر ماہر معیشت اور ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے عرب نیوز سے بات چیت میں کہا کہ ’پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہے کیونکہ ملک میں طویل مدت کی سرمایہ کاری نہیں کی جارہی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’بظاہر اب ایف اے ٹی ایف پاکستان کو کہہ رہا ہے کہ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے بعض کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مخصوص افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے سفارت کاری تیز کرے اور چین کی طرح کے مٹھی بھر ملکوں پر انحصار کرنے کی بجائے ایف اے ٹی ایف کے تمام ارکان کے ساتھ رابطہ کرے۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار اویس توحید کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتیں اپنے جیوسٹریٹیجک مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کو آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان اپنے معاشی نظام کی خامیاں دور کرنے کے لیے تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہے۔ وہ عالمی نگران ادارے سے مراعات حاصل کرنے کے لیے بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو متوازن رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ سیاسی معاملہ لگتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے معاشی نظام میں خامیاں موجود ہیں کیونکہ یہ نظام زیادہ تر غیر رسمی ہے لیکن دنیا کے تمام دوسرے ملکوں میں بھی خرابیاں موجود ہیں۔‘
انہوں نے پاکستان کو ’منفی تصورات سے متاثرہ ملک‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ اسے سیاسی فائدے اور اپنی کمزور معیشت کے لیے ضروری حمایت حاصل کرنے کی غرض سے عالمی برادری کی نظر میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
’ایف اے ٹی ایف جیسے ادارے عالمی طاقتوں کی خواہش کے مطابق کام کرتے ہیں، اس لیے ہمیں نام نہاد گرے لسٹ نکلنے کے لیے عالمی برداری کے ساتھ بھرپور طریقے سے رابطہ قائم کرنا ہوگا۔‘