مئی کے مہینے میں محکمہ جیل خانہ جات ہائی سکیورٹی پریزن میانوالی کی جانب سے مختلف اسامیوں کے لیے ایک روزنامے میں اشتہار جاری کیا گیا۔
اس اشتہارمیں ایک اسامی جلاد (Executioner) کی بھی تھی۔ اشتہار میں لکھا تھا کہ سکیل ون کی اس ایک اسامی کے لیے درخواست دینے والے کی عمر 21 سے 35 سال کے درمیان ہونی چاہیے اور اس اسامی کے لیے پڑھے لکھے نوجوان درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔
وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان کے ترجمان عتیق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس اسامی کے لیے محکمہ جیل خانہ جات کو 29 درخواستیں موصول ہوئی ہیں جب کہ ان کا ٹیسٹ اور انٹرویو جولائی کے وسط میں ہوگا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں 43 جیلیں ہیں جن میں 2902 سزائے موت کے قیدی ہیں جن میں 23 خواتین بھی ہیں۔
محکمہ جیل خانہ جات کے مطابق جلاد کی نوکری کے لیے پہلی بار کسی اخبار میں اشتہار دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایک ہی جلاد صابر صادق پنجاب میں کام کر رہا ہے جس کا پورا خاندان اسی پیشے سے وابستہ تھا۔ اور وہ ہی دیگر شہروں کی جیلوں میں پھانسی کے لیے جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب جلاد صابر صادق سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ 2006 سے جلاد کی نوکری کر رہے ہیں اور ان کے باپ، دادا پردادا،چاچا وغیرہ سب اسی کام سے منسلک تھے۔ صابر نے بتایا کہ پنجاب میں وہ اکیلے جلاد نہیں بلکہ کوٹ لکھ پت جیل میں دو جلاد ہیں۔ ایک وہ خود اور دوسرے ’نبیل مسیح ہیں جنہیں 2015 میں رکھا گیا تھا۔ وہ بھی میرے ساتھ کوٹ لکھ پت جیل میں ہوتے ہیں۔ اور وہ میرے جونئیر ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’پنجاب میں جلادوں کی تین سیٹیں ہیں۔ ایک جلاد جان مسیح انتقال کر گئے جن کی جگہ پر کرنے کے لیے اسامی کا اشتہار دیا گیا ہے۔‘ صابر صادق نے دعویٰ کیا کہ جلاد کے انٹرویو وہ خود کرتے ہیں۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ انٹرویو میں جلاد سے کیا سوال کیے جاتے ہیں اور اس میں مذکورہ اسامی کے لیے کیا خصوصیات دیکھی جاتی ہیں تو جواب میں صابر صادق نے کہا کہ وہ کسی بھی صحافی کو انٹرویو دینے کے پیسے لیتے ہیں اس کے بغیر وہ کوئی معلومات فراہم نہیں کریں گے۔
یہی معلومات جاننے کے لیے ہم نے آئی جی جیل خان جات مرزا شاہد سلیم بیگ سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے سوال سنے بغیر یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ وہ فون کرنے والی صحافی کو نہیں جانتے اس لیے وہ ایسے فون پر کسی سے بات نہیں کریں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ہائی سکیورٹی پریژن میانوالی (جہاں جلاد کی اسامی کا اشتہار دیا گیا) کے سپرانٹینڈینٹ جیل ڈاکٹرمحمد صدیق سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا ’پنجاب میں اس وقت صرف دو ہائی سکیورٹی جیلیں ہیں ایک ساہیوال میں اور دوسری یہاں میانوالی میں بنائی گئی ہے۔ ابھی اس جیل کے لیے بھرتیاں کی جارہی ہیں اور اس جیل نے ابھی عملاً کام شروع نہیں کیا۔ یہاں پر ایک جلاد کی ضرورت تھی اسی کے لیے اخبار میں دیگر اسامیوں کے ساتھ جلاد کی اسامی کا اشتہار بھی دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان اسامیوں کے لیے درخواست گزاروں کے انٹرویو جولائی کے دوسرے ہفتے میں ہوں گے جس کے لیے آئی جی جیل خانہ جات ایک کمیٹی بنائیں گے جس میں وہ خود ہوں گے ساتھ ایک سپرانٹینڈنٹ جیل ہوگا۔
’ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے کمیٹی میں شامل کر لیں یا کسی اور سپرانٹینڈینٹ جیل کو۔ اور پھر ان کا ٹیسٹ لیا جائے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ جلاد کو کس قسم کا ٹیسٹ دینا ہوتا ہے؟ تو اس کے جواب میں سپرانٹینڈینٹ ڈاکٹرمحمد صدیق کا کہنا تھا ’اس میں بس یہ ہی چیک کریں گے کی انہوں نے جو دستاویزات جمع کروائی ہیں وہ درست ہیں یا نہیں یا ان کی مہارت کا ٹیسٹ لیا جائے گا۔ لیکن کوئی خاص ٹیسٹ نہیں ہوگا ویسے بھی جلاد کا کام کچھ بھی نہیں ہوتا نہ اس نے قیدی کو لے کر جانا ہے نہ اسے ہاتھ لگانا ہے اس نے تو بس صرف لیور کھینچنا ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی کام نہیں۔‘ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ ایک سخت کام ہے کسی کو پھانسی دینا تو کیا جلادوں کا کوئی نفسیاتی ٹیسٹ بھی ہوتا ہے یا کوئی نفسیاتی کونسلنگ تو ڈاکٹر محد صدیق نے بتایا کہ ’نفسیاتی ٹیسٹ تو ان کے بھی ہوتے ہیں اور قیدیوں کے بھی۔ محکمہ جیل خانہ جات میں باقاعدہ مختلف شعبے ہیں جن میں نفسیات کے ماہر بھی موجود ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ جلاد صرف ایک جیل کے لیے مختص نہیں ہوتا بلکہ یہاں بھرتی ہونے والے جلاد کی ضرورت اگر کسی اور جیل میں ہو گی تو اسے وہاں بھیج دیا جائے گا۔
جلاد کا کیا کام ہوتا ہے؟
جیل رولز کے مطابق ’جلاد کا کام صرف لیور کھینچنا نہیں بلکہ جب سزائے موت کے قیدی کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا جاتا ہے تو جلاد اس کی ٹانگوں کو باندھنے کے بعد اس کے منہ اور گردن کو پر کالا غلاف سے ڈھانپ دے گا، اس کے بعد اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالے گا۔ جس کے بعد قیدی کو پکڑ کر لانے والے اپنی گرفت چھوڑ دیں گے اور سپرانٹینڈینٹ کی جانب سے اشارہ ملتے ہی جلاد پھانسی کے تختے کا لیور کھینچ دے گا۔ ‘
جسٹس پراجیکٹ پاکستان ایک ایسا ادارہ ہے جو جیلوں میں قید سزائے موت کے قیدیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ جلاد کی بھرتی کے حوالے سے ان کے ریسرچ اینڈ کمیونیکیشن افسر محمد شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’یقیناً ہمارے لیے یہ بات تشویش ناک اور پریشان کن ہے۔ ایک اخبار میں جلاد کی بھرتی کے اشتہار کی علامتی حیثیت بھی ہے۔ اس کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ نوآبادیاتی طور پر ہماری جیلوں کا نظام جس طرح ہمیں وراثت میں ملا اس کے اندر ایک جلاد کے بغیر جیل کا تصور ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ایک نئی جیل جو ابھی فعال نہیں ہے اس میں جلاد کی بھرتی کے لیے کس طرح اشتہار دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم نفسیاتی اثر کی بات کریں تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ایک جلاد پر اس کے کام کا کیا اثر ہوتا ہے۔ ایسے کچھ کیسسز ہیں جن میں پھانسی ہو جانے کے بعد ملزمان کو بری کر دیا گیا جیسے بھاولپور میں دو بھائیوں کو پھانسی دے دی گئے تھی لیکن عدالت نے ایک سال بعد انہیں بری کر دیا۔ ایسے میں ایک ایسا شخص جو پھانسی کی علامت بن جاتا ہے اس کے بارے میں بھی ہمیں سوچنا پڑے گا وہ فرائض، نوکری اور ڈیوٹی کے نام پر نفسیاتی طور پر کس صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔‘
جے پی پی کے ترجمان علی حیدر حبیب نے بھی جلاد کی بھرتی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’ہم نے حال ہی میں دیکھا کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کچھ سزائے موت کیسز جو ذہنی بیمار یا کم عمر قیدیوں کے تھے ان میں پروگریسیو فیصلے آئے اور سزائے موت کو ختم کیا گیا۔ ایسے میں جب عدلیہ ایسے فیصلے کر رہی ہے اور دوسری طرف ہم جلاد بھرتی کر رہے ہیں تو یہ یقیناً تشویش ناک بات ہے۔ اور ہم اس حوالے سے فکرمند ہیں۔‘
کیا جلاد صرف غیر مسلم ہوتے ہیں؟
اس حوالے سے وزیر جیل خانہ جات کے نزدیکی ذرائع کا کہنا تھا کہ ’تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو جیسے خاکروب ہوتے ہیں ان کے لیے کوئی قدغن نہیں ہے کہ صرف غیر مسلم ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو یہ لگتا ہے کہ وہ کوئی گندا کام کر رہے ہیں۔ اس لیے مسلمان اس اسامی کے لیے درخواست جمع ہی نہیں کرواتے۔ اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ خود بخود ایک کرائٹیریا سیٹ ہو گیا کہ صرف غیر مسلم ہی اس اسامی کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ جلاد کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔ مسلمان اس اسامی کے لیے درخواست نہیں دیتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب جے پی پی کے ترجمان علی حیدر کاکہنا تھا: ’اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ جلاد کی اسامی دراصل سویپر(خاکروب) کی اسامی ہوا کرتی تھی۔ اور ہم جانتے ہیں کہ بدقسمتی سے جو سویپرز ہم بھرتی کرتے ہیں اس کے لیے اشتہار میں خاص طور پر لکھا جاتا ہے کہ وہ غیر مسلم ہوں۔ اس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ہم جو پھانسی دیتے ہیں ہم اس کو اتنا شرم ناک عمل سمجھتے ہیں کہ ہمارے خیال میں مسلمان ایسے کام نہیں کر سکتے اور غیر مسلم جنہیں ہم بہت سے غلط ناموں سے بھی بلاتے ہیں ہم ان کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ صرف ہمارا گند اٹھا سکتے ہیں اس لیے پھانسی کا کام بھی انہی سے کروایا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو اس ذہنی اذیت سے گزارنا کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک یا بہت سے افراد کی جان لے رہا ہے، ہمارے خیال میں اس کا ذہنی و نفسیاتی اثر جو جلاد پر ہو رہا ہے وہ بھی سزائے موت کی طرح ناقابل تلافی ہے۔‘