حکومتِ بلوچستان نے خواتین کو قومی ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے وومن ڈویلپمنٹ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا ہے جس کے تحت قانون سازی سمیت دیگر منصوبوں پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
محکمے کی کارکردگی کو مزید موثر بنانے اور ترقیاقی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے ڈائریکٹوریٹ کا قیام تو چھ ماہ قبل عمل میں لایا گیا تھا لیکن آج اس کا باقاعدہ افتتاح کیا جا رہا ہے۔ ویمن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ اس سے قبل سوشل ویلفیئر محکمے کے ساتھ منسلک تھا جسے 2011 میں ڈائریکٹوریٹ کا درجہ دے کر الگ کیا گیا تھا، اب ڈائریکٹوریٹ کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ خواتین کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے موثر انداز میں کام کیا جا سکے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ویمن ڈویلپمنٹ ڈائریکٹوریٹ امبرین گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہمارا عزم ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے تبدیلی کا باعث بن سکیں۔
خواتین کے حوالے سے محکمے کے قیام کے بعد حکومت نے قانون سازی اور دیگر اقدامات کا آغاز کردیا ہے جن میں ڈومیسٹک وائلینس (پروینشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2014) کا قیام اور کام کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ دینے کا ایکٹ 2016 شامل ہے۔ اس کے ساتھ بلوچستان کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن 2017 کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
امبرین نے بتایا کہ ’اب تک ہم نے کوئٹہ، سبی اور خضدار میں خواتین کے لیے کرائسس سینٹرز قائم کیے ہیں، ہیلپ لائن 1089 کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں ادارے کے ساتھ یو این ڈی پی نے تعاون کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مستقبل میں بلوچستان میں خواتین بازار بنانے کے منصوبے بھی زیر غور ہیں جن کو صوبائی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں شامل کر لیا گیا ہے، ان میں سے ایک سی پیک کے روٹ پر خضدار میں قائم کیا جائے گا جو آنے والے دنوں میں خواتین کی مارکیٹ تک رسائی اور معاشی ترقی کے حوالے سے اہم قدم ثابت ہو گا۔‘
امبرین کا مزید کہنا تھا کہ محکمے کے ذریعے خواتین کو قانونی مدد کے علاوہ شیلٹر ہوم قائم کیے جا رہے ہیں جن میں ایک مخصوص وقت تک خواتین کو رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں طبی اور نفسیاتی علاج کی سہولت بھی دی جا رہی ہے۔‘
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ویمن ڈویلپمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بتایا کہ ’ڈائریکٹوریٹ کے توسط سے ہم نے راولپنڈی چیمبر آف کامرس سے رابطہ کیا ہے جس کے تحت بلوچستان کی خواتین کو تربیت اور مارکیٹ تک رسائی کی سہولت دی جائے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’خواتین کے لیے انٹرپرینیورشپ (کاروبار کے فروغ) کے حوالے سے بھی کام شروع کیا جا رہا ہے، ہمارا بنیادی مرکزِ نگاہ ای کامرس ہے جس کے ذریعے ہمیں گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے ورکشاپس اور تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔‘
امبرین کہتی ہیں کہ ’نوجوان خواتین کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں آن لائن مارکیٹ تک رسائی اور کاروبار کرنے کی سہولت مہیا کر سکیں، اس کے علاوہ انہیں اس حوالے سے تربیت بھی فراہم کریں تاکہ وہ جدید دنیا میں نہ صرف کاروبار کر سکیں بلکہ صوبے کی معیشت میں بھی کردار ادا کر سکیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ویمن ڈپارٹمنٹ کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان کی خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کیا جائے، اگر ہم کسی خاتون کو اس حوالے سے تربیت دے دیں تو معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ہم دیگر صوبوں کے ویمن ڈپارٹمنٹ کے ساتھ بھی رابطوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، اس سلسلے میں پنجاب ویمن ڈپارٹمنٹ کے حکام کے ساتھ ملاقات سود مند رہی اور ان کے تجربوں سے ہمیں فائدہ ملے گا اور ان کا تعاون بھی ہمیں حاصل رہے گا۔‘
امبرین نے کہا کہ ’خواتین کو معاشرے میں ان کا مقام دلانے کے سلسلے میں مذہبی رہنماؤں کے ساتھ بھی رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، ان کے ساتھ ہم نے ایک پروگرام کا انعقاد کیا تاکہ مذہبی رہنما بھی ہمارے ساتھ اس کام میں شامل ہوں، صنفی برابری اور خواتین کو مستحکم کرنے کے حوالے سے حکومتِ بلوچستان نے 2020 میں پالیسی کی منظوری دی، جس کے مقاصد میں خواتین کو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کرنے کے علاوہ انسانی بحران کے دوران خواتین کی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ اور خواتین پر تشدد کا خاتمہ شامل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امبرین نے بتایا کہ ’ہمارے نئے سیکٹر پلان میں ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ہوسٹلز کا قیام، اولڈ ایج ہوم کی تعمیر اور تزئین و آرائش اور دیگر منصوبے شامل ہیں، 20-2019 کے منصوبوں میں وومن بزنس انکوبیشن سینٹرز کا قیام بھی شامل ہے جو کوئٹہ، خضدار، خاران، لورالائی اور گوادر میں تعمیر کیے جارہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ خواتین کو درپیش ہراسانی کے مسائل کی روک تھام کے لیے صوبائی خاتون محتسب کی تقرری کی گئی اور اس کا باقاعدہ دفتر بھی قائم کیا گیا ہے جہاں نہ صرف خواتین اپنی شکایات درج کرا رہی ہیں بلکہ ان کی شنوائی بھی ہورہی ہے اور مجرموں کو سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔