پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں مزاحمت کاروں سے بات کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اب حالات ویسے تبدیل ہو گئے ہیں۔
انہوں نے یہ بات دورہ گوادر کے دوران طلبہ، عمائدین اور کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں کبھی فکر نہیں ہونی چاہیے تھی کہ بلوچستان میں مزاحمت کار آ گئے ہیں یا تحریک میں لگے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں ویسے ان سے بھی بات کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں پرانے زمانے میں رنجشیں ہوں یا ہندوستان ان کو انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کرتا ہو، لیکن اب تو وہ حالات نہیں ہیں۔‘
عمران خان کا اپنے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ ’بلوچستان سے مرکز نے بھی انصاف نہیں کیا اور بلوچستان کے سیاستدانوں نے بھی ان سے انصاف نہیں کیا، میرے خیال میں جو پیسہ آتا تھا وہ بھی ٹھیک سے نہیں لگا۔‘
’ابھی بھی ہمارے حالات ایسے نہیں کہ ہم بلوچستان کو اتنا زیادہ پیسہ دے سکیں لیکن سب سے زیادہ پیکج ہم نے بلوچستان کو اس لیے دیا کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ واقعی بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور وہ پیچھے رہ گئے ہیں۔‘
اس کے بعد عمران خان نے گوادر اور سی پیک منصونے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی توجہ سی پیک پر مرکوز ہے جس سے تاجکستان اور ازبکستان بھی مستفید ہونا چاہتے ہیں لیکن افغانستان میں خراب حالت اور خانہ جنگی کے خدشے کے باعث ہمیں نہیں بلکہ سب کو تشویش ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ’ہماری وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ اس کوشش میں لگی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے نہ صرف ہمسایہ ممالک بلکہ طالبان اور دیگر سے بھی رابطہ کریں تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو اور یہ ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف نہ جائے۔‘
وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ بلوچستان اور چین کے سفیر نے گوادر میں سی پیک منصوبے کے تحت مختلف منصوبوں جن میں گوادر فرٹیلائزر پلانٹ، گوادر انیمل ویکسین پلانٹ، ہینان ایگری کلچر انڈسٹریل پارک، گوادر فری ویژن فیزٹو اور گوادر ایکسپو سینٹر شامل ہیں کے حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان ایم او یوز پر دستخط کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایم او یوز کے مطابق گوادر میں ایک اعشاریہ دو ملین ڈی سلینیشن پلانٹ لگایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سولر جنریٹرز جنوبی بلوچستان کے لیے چین کی طرف سے گرانٹ دی جائے گی۔
یاد رہے کہ گوادر میں اس وقت جہاں ایک طرف ترقی ہو رہی ہے۔ وہاں دوسری جانب شہری صاف پانی اور بجلی کے مسئلے سے دوچار ہیں جس کے لیے وہ آئے روز احتجاج اور شاہراہیں بند کر کے آواز بلند کرتے ہیں۔
ادھر سی پیک پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے تو خوش آئند ہے، تاہم پانی اور بجلی کا مسئلہ ان منصوبوں سے حل نہیں ہوگا۔
سی پیک کے امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عدنان عامر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت گوادر شہر کو پانی کی 11 ملین گیلن کی روزانہ ضرورت ہے، جسے اس وقت چار ملین گیلن کے قریب پانی مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران کے دورے کے دوران جن ایم او یو پر دستخط کیے گئے اس کے تحت گوادر کے لیے جس پلانٹ کا افتتاح کیا گیا وہ ایک اعشاریہ دو ملین کا ہے۔ جو فوری یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتا ہے۔
عمران خان نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں جہاں وہ خود متاثر ہوگا بلکہ اس کے ہمسایہ ممالک بھی اس کے اثرات سے نہیں بچ پائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں سیاسی طریقے سے مسائل حل ہوں اور وہاں ایک قابل قبول حکومت کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔‘