جعلی ویکسینیشن کے شکار بھارتی شہری خوفزدہ

بھارت میں پکڑا جانے والا ایک بڑا ویکسین سکینڈل جس میں 14لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن میں رجسٹرڈ ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔

 جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں ساڑھے چھ کروڑ افراد کی ویکسینیشن مکمل ہو چکی ہے جو ملکی آبادی کا صرف 4.8 فیصد ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

کئی دن تک حکومت کے سرکاری پورٹل پراندراج کے لیے تک تگ ودو کرنے کے بعد جب روشابھ کامدار کو معلوم ہوا کہ وہ ان پہلے لوگوں میں شامل ہوں گے جنہیں ان کے ممبئی میں واقع ہاؤسنگ کمپلیکس میں کووڈ19 کی ویکسین لگائی جائے گی تو وہ بہت خوش ہوئے۔

 ویکسین لگنے کو ’رحمت‘ قراردیتے ہوئے 25 سالہ روشابھ کامدار نے فوری طور پر اپنا اور اپنے بھائی کا اندراج کروالیا۔ انہوں نے ویکسین لگانے کے عمل کے قانونی ہونے کے بارے میں نہیں سوچا کیونکہ اس کا اہتمام ان کے ہاؤسنگ کمپلیکس میں مقیم شخص کی فلاحی تنظیم نے کیا تھا۔ 30 جون کو انہیں اور ان کے 390 سے زائد ہمسایوں کو ویکسین لگائی گئی لیکن یہ کووڈ 19 کی ویکسین نہیں تھی۔

ہاؤسنگ کمپلیکس کے حکام نے معاملے کی محض اس وقت چھان بین شروع کی جب انہیں کئی دن تک ویکسین لگوانے کے سرٹیفکیٹس نہیں ملے۔ سرٹیفکیٹس ملنے میں تاخیر کے بعد حکام سے رابطہ کرنے پر انہیں معلوم ہوا کہ وہ کئی مہینوں سے جاری دھوکہ دہی کے تازہ ترین متاثرین ہیں۔

 کامدار نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ویکسین لگنے کے ایک ماہ سے زیادہ وقت کے بعد مجھے علم نہیں ہے کہ ہمارے خون میں کیا داخل کیا گیا اورہمارے ساتھ کیا ہوگا۔ میں خوفزدہ ہوں کہ اس کے طویل المدت اثرات ہو سکتے ہیں۔‘

کامدار کہتے ہیں کہ بعد میں یہ بات خلاف معمول دکھائی دی کہ کسی نے اپنے آپ کو ٹیکہ لگنے کی تصویر نہیں بنائی تھی۔ بعدازاں ویکسین لگنے کا معاملہ مشکوک ہوگیا کہ کسی کو بھی بازو میں درد یا کوئی ضمنی اثرات محسوس نہیں ہوئے۔ بالآخر خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب ہاؤسنگ کمپلیکس کے زیادہ تر مکینوں کو ’ٹیکہ‘ لگنے کے 15 دن کے بعد بھی سرٹیفکیٹس موصول نہیں ہوئے۔

 ممبئی میں واقع ہیرانندانی ہیریٹیج ہاؤسنگ کمپلیکس کی نوجوان کاروباری شخصیت ریاست مہاراشٹر کے ان دو ہزارلوگوں میں شامل تھی، جن کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ جعلی کرونا (کورونا) ویکسین سکینڈل کے متاثرین میں شامل ہیں۔ اب تک پتہ نہیں چل سکا کہ انہیں کس مواد کا ٹیکہ لگایا گیا لیکن پولیس کو شبہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ محض نمک ملے پانی کا ٹیکہ لگایا گیا ہو۔

یہ ملک میں پکڑا جانے والا سب سے بڑا ویکسین سکینڈل ہے جس میں 14 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں رجسٹرڈ ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔

 بھارت کے کاروباری سرگرمیوں کے نسبتاً امیر مراکز اور اس کے گردو نواح میں اپریل سے جون تک دو ماہ کے عرصے میں جاری رہنے والی جعلی ویکسینیشن مہم کے دوران 12 بوگس مراکز قائم کیے گئے۔ ممبئی کووڈ 19 کی دونوں لہروں میں خاص طور پر متاثر ہوا ہے۔ صرف مہاراشٹر کی ریاست میں کرونا وائرس کے نتیجے میں ایک لاکھ 24 ہزار اموات ریکارڈ کی گئیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اموات کی یہ تعداد حقیقی اموات سے کہیں کم ہے۔

جب اپریل میں وبا کی دوسری لہر قابو سے باہر ہوگئی تو ویکسین لگوانے والوں کا رش بڑھ گیا۔ اس صورت حال میں لوگوں کی پریشانی اور سرکاری ویکسینیشن مراکز پر ویکسین کی شدید قلت کا فائدہ دھوکہ دہی میں ملوث افراد نے اٹھایا۔ تب سے بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ ویکسین کی پیداوار بڑھائی جائے گی اور اس سال کے آخر تک تمام بالغ افراد کو ویکسین لگا دی جائے گی لیکن اب بھی ملک ایسا کرنے کے راستے پر گامزن نہیں ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جعلی ویکسینیشن سکینڈل میں ملوث افراد نجی شعبے کے ویکسین فراہم کرنے والوں کے بھیس میں تھے۔ اگلی صفوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو ویکسین لگانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد بھارت میں نجی ہسپتالوں کو ویکسین کی خریداری اور فراہم کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے۔

 دھوکہ دینے والوں نے ایک ویکسین کی ایک خوراک کے 1250 روپے (12 پاؤنڈ) تک وصول کیے۔

 یہ رقم نجی شعبے کے حقیقی ویکسین فراہم کنندگان کی رقم سے تقریباً 50 فیصد زیادہ ہے۔ نوسربازوں نے مجموعی طور پر 20 لاکھ روپے (19 ہزار تین سو پاؤنڈ) اکٹھے کیے۔

مانا جاتا ہے کہ ملزمان نے ایک ہسپتال کی خالی اور استعمال شدہ شیشیاں استعمال کیں جہاں ویکسینیشن کی مہم چلائی گئی تھی۔ اس اقدام کا مقصد کارروائی کو حقیقت کے زیادہ قریب ظاہر کرنا تھا۔ پولیس نے کہا ہے کہ تفتیش کار یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حقیقت میں نوسربازوں نے لوگوں کو کس چیز کے ٹیکے لگائے۔

 ممبئی کے ایک اور47 سالہ رہائشی ہتیش پٹیل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ ان کے 18 سالہ بیٹے بھی اس سکینڈل کے متاثرین میں شامل ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کا اعتبار’اٹھ‘ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم (مستقبل میں) نجی ویکسینیشن مرکز جانے سے پہلے دو مرتبہ سوچیں گے۔ جب میرے بیٹے کو پتا چلا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا ہے تو انہیں دھچکا لگا اور غصہ آیا۔ یہ ایک منظم جرم تھا۔‘

نوسر بازوں کو جنہیں ممکنہ طور پر جرائم کے الزامات کا سامنا ہے، کے علاوہ ممبئی کے وکیل سدھارتھ چندرشیکھر نے ملزم ڈاکٹروں کے خلاف عوامی مفاد کا مقدمہ بھی دائر کر دیا ہے۔ ان کی درخواست کی ابتدائی سماعت کرتے ہوئے ممبئی کی ہائی کورٹ نے اس صورت حال کو ’حقیقت میں جھنجھوڑ دینے والی‘ اور ’دل توڑنے‘ والی قرار دیا ہے کہ لوگوں کو دھوکہ دے کر ان سے ایسے وقت پیسے بٹورے گئے جب ملک بحران میں مبتلا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ یہ بہت بڑا سکینڈل ہے لیکن یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے کہ جب عوامی سطح پر وبا سے پیدا ہونے والی پریشانی سے خوشی کے ساتھ فائدہ اٹھانے والے افراد نے لوگوں کے پیسے اور زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہو۔

 جب بھارت کے دارالحکومت میں طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی آکسیجن کی قلت تھی تو پولیس کو معلوم ہوا کہ نوسر باز آگ بجھانے کے سلینڈرز کو آکسیجن کے سلینڈرز کے طور پر فروخت کر رہے تھے جبکہ دوسرے لوگوں نے آکسیجن کی فراہمی کے لیے پیشگی رقوم وصول کی اورغائب ہو گئے۔ صحت کے نظام کی ناکامی کے ساتھ ہی بلیک مارکیٹ کو عروج حاصل ہوا، جس کے نتیجے میں جعلی ادویات کی بھرمار ہو گئی اور ذاتی تحفظ کے استعمال شدہ آلات دھڑا دھڑ فروخت ہونے لگے۔

بحران کی انتہا پر ایک ارب 30 کروڑکی آبادی والے ملک میں ایک دن میں وائرس کے چار لاکھ 15 ہزار نئے کیس رپورٹ کیے جا رہے تھے۔ وبا شروع ہونے کے بعد بھارت میں چار لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تباہ کن دوسری لہر جس کا آغاز محض چند ماہ پہلے ہوا تھا، نصف ہلاکتیں اسی کے نتیجے میں ہوئیں۔

 جان ہاپکنز یونیورسٹی کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں 36 کروڑ لوگوں کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک لگا دی گئی ہے اورساڑھے چھ کروڑ افراد کی ویکسینیشن مکمل ہو چکی ہے، جو ملکی آبادی کا صرف 4.8 فیصد ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت