میں 1984 سے 1987 کے دوران ماسکو میں رپورٹر تھا جو سوویت یونین کے آخری سال ثابت ہوئے۔
ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ان ہی برسوں کے دوران سوویت حکومتی نظام بری طرح لڑکھڑانے لگا اور بالآخر 1991 میں اس کا شیرازہ بکھر گیا۔ لیکن تب ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا اور کچھ ایسے آثار بھی نمایاں نہیں تھے کہ یہ ٹوٹنے والا ہے۔ یہاں تک کہ جب مئی 1985 میں میخائیل گورباچوف سوویت یونین کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنے اس وقت تک بھی مجھے لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے میں مشکل کا سامنا تھا کہ ماسکو میں کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
جو اتنی بڑی سیاسی تبدیلی واقع ہونے کو تھی یقیناً میں نے پہلے سے اس کا اندازہ نہیں کر لیا تھا لیکن بہت جلد یہ واضح ہو گیا کہ تاریخ غیر متوقع اور ڈرامائی موڑ لینے والی ہے۔ اگرچہ بہت سے روس شناس، سفارت کار اور صحافی ایسے بھی تھے جو مُصر رہے کہ گورباچوف کا تمام ہیولا ’کے جی بی‘ اور ان کے حامیوں کی تشہیری مہم کا مرہون منت ہے، جو لوگ اس سے مختلف سوچ رہے تھے یا تو انہوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی یا پھر سوویت اتحاد کی فتنہ پردازیوں سے مجرمانہ طور پر بے خبر تھے۔
جب میں 1984 میں آیا تو اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ سوویت یونین میں چند سیاسی، سماجی اور معاشی دراڈیں پڑ چکی ہیں لیکن مجموعی طور پر ملک ٹھیک ٹھاک مستحکم نظر آیا۔ دوسری طرف میری توقعات کچھ بہت زیادہ نہیں تھیں کیونکہ میں ابھی بیروت سے آیا تھا جہاں فوج نے بغاوت کر دی تھی اور ایوان صدارت توپوں کی زد میں تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے مجھے لگتا ہے کہ یہ استحکام ہی تھا جس نے سوویت رہنماؤں کو یہ خیال سُجھایا کہ وہ اپنے نظام میں انقلابی اصلاحات متعارف کروا سکتے ہیں اور اس سے ان کے موجودہ اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔ یہ وہی غلطی دہرائی گئی جو اس سے پہلے Louis XVI فرانس میں 1789 میں Estates General کی صورت میں کر چکے تھے۔ آمرانہ سلطنتیں اپنے ہی پراپیگنڈے پر یقین کرنے لگتی ہیں اور اس بات کو پس پشت ڈال دیتی ہیں کہ ان کا اقتدار کس حد تک طاقت کے استعمال پر انحصار کرتا ہے۔
جب میں ماسکو پہنچا تو ممکن ہے یہ شہر بے ہوش بلکہ نیم جان ہو چکا ہو لیکن اس وقت یہ انقلابیوں اور طویل عرصے سے جاری سابقہ حکومتوں کے اعلیٰ عہدے داروں کے بتدریج پھیلتے پراپیگنڈے کے دھندلکے کی لپیٹ میں تھا۔ بیروت میں سفارتی عملے اور صحافیوں نے جھڑپیں محفوظ پہاڑی مقامات پر بیٹھ کر دیکھیں جہاں سے پورا شہر جیتنے اور ہارنے والوں کو واضح طور پر ہمارے سامنے پیش کر رہا تھا۔
ماسکو میں اس طرح کا منظر اس وقت ترتیب پاتا جب کیمونسٹ پارٹی کی مجلس عاملہ کے رکن کی تازہ ترین موت کے بعد آخری رسومات کے لیے میت ریڈ سکوائر سے نکالی گئی۔ رہنماؤں کی زندہ رہ جانے والی کھیپ لینن کے مقبرے کے سرخ سنگ خارا سے بنے گنبد کی چوٹی سے میت کا نظارہ کرتی رہی جبکہ صحافی اور سفارتی عملہ اس کے ساتھ ہی ذرا سا نیچے مخصوص حصے میں کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔
اس وقت چار اہم اموات ہوئی تھیں۔ لیونڈ بریزنیف اور ان کے جانشین یوری آندراپوف میرے وہاں پہنچنے سے دو سال قبل مرے تھے اور اگلے چھ مہینوں میں وزیر دفاع مارشل دمتری استینوف اور سوویت یونین کیمونسٹ پارٹی کے صدر اور جنرل سیکرٹری کونسٹٹین چرنینکو بھی ان سے جا ملے۔ ہسپتال کے ترجمانوں کی طرح سوویت حکام بھی امید بھری خبریں سناتے رہتے یہاں تک کہ اچانک ریڈیو اور ٹی وی سوگوار دھنیں بجانے لگتے۔
ماسکو میں بطور غیر ملکی نمائندہ کام کرتے ہوئے کس طرح کی عجیب و غریب صورت حال پیش آتی تھی اس کی ایک مضحکہ خیز جھلک انتہائی اہم سیاسی کھلاڑی استینوف کی موت کی ملنے والی اچانک خبر سے واضح ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بیمار ہیں لیکن یہ خبر کہ وہ مر چکے ہیں پہلی بار دو امریکی صحافیوں کو اس وقت پتہ چلی جب وہ دونوں کریملن کے قریب انتہائی شاندار مقام Hall of Pillars پہنچے جہاں عالمی شطرنج چیمپئن شپ کے مقابلے جاری تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ہال کے دروازے بند ہیں اور باہر ایک نوٹس چسپاں ہے کہ آج کا مقابلہ کینسل کر دیا گیا ہے اور دریائے مساکو کے جنوبی طرف کسی نامعلوم ہوٹل پر یہ کھیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
یہ جاننے کے تجسس میں کہ ایسا کیوں ہوا انہوں نے دروازے پر اس وقت تک دستک جاری رکھی جب تک ہاتھ میں جھاڑو تھامے صفائی کرنے والی عورت نمودار نہ ہوئی اور اس نے کہا کہ وہ صفائی کر رہی ہے تاکہ گذشتہ رات مرنے والے مارشل استینوف کی میت کو ریاستی اعزاز کے طور پر یہاں کچھ دیر رکھا جا سکے۔ اتنی اہم خبر ملنے سے نہال صحافی اپنے دفتر گئے لیکن وہ اپنے ذرائع کے کم تر سماجی رتبے سے پریشان ہو گئے اور پھر فیصلہ کیا کہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح صفائی کرنے والی عورت بھی آخر کار ریاستی ملازمہ ہی تھیں اس لیے وہ اپنی معلومات کو ’ایک سوویت سرکاری فرد‘ کے نام سے پیش کریں گے۔
معلومات خفیہ رکھنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود جو کچھ سوویت یونین میں ہو رہا تھا وہ بالکل واضح تھا کہ پرانے لوگ، جنگ کے زمانے کی نسل مر رہی تھی۔ لیونڈ بریزنیف کی طرح معاملات چلانے کے خواہش مند رجعت پسند سوویت رہنما کمزور تھے۔ انہیں ایک جوان اور توانا امیدوار کی ضرورت تھی مگر ایسا کوئی شخص میسر نہیں تھا۔ 1984 کے اوائل میں یوری آندراپوف کی موت کے بعد جو بہترین ممکنہ قدم وہ اٹھا سکتے تھے وہ بریزنیف کے پرانے ساتھی چرنینکو کی بطور جانشین تعیناتی تھی۔
سفید بالوں اور emphysema کے سبب ہانپتے ہوئے سانس لینے والے چرنینکو بد خواہی سے بھری پرانے رہنماؤں کی ایک بگڑی ہوئی تصویر معلوم ہوتے تھے اور سال کے اختتام تک وہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہو گئے جن کا کام اب ماسکو کے مضافات میں دیہاتی طرز کے مکان میں آرام کرنا رہ گیا تھا۔ اس کے بعد وہ ایک ہی بار دوبارہ نظر آئے جو سوویت ٹیلی ویژن کی یہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش تھی کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں۔ اس میں دکھایا گیا کہ وہ ایک وفد کو خوش آمدید کہنے کے لیے سیدھے کھڑے ہیں لیکن ظاہر ہے ایک کرسی کی پشت کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بطور سہارا استعمال کرتے ہوئے۔ جب وفد کے سربراہ نے چرنینکو کو پھولوں کا گلدستہ پیش کرنے کی کوشش کی تو وہ اس قدر کمزور تھے کہ گلدستہ وصول کرنا بھی گراں ثابت ہوا۔ دو بار انہوں نے اپنا دائیاں ہاتھ کرسی پر سے چند انچ اٹھایا لیکن یہ بہت مشکل امر لگا اور ہاتھ واپس گر گیا۔
چند ہفتوں بعد میں نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی جسے ایک دل سوز سانحہ قرار دیا گیا تھا۔ ریڈ سکوائر کی مخالف سمت میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سٹور کے باہر مجلس عاملہ کے اراکین سے لے کر عام شہریوں تک ہر کوئی انتہائی خوشگوار موڈ میں تھا۔ بالآخر قیادت کا بحران ختم ہو چکا تھا۔ سنہرے دھاگوں سے سجی وردی اور پرشین بھیڑ کی کھال سے تیار کردہ ٹوپیاں زیب تن کیے میرے پیچھے سکوائر سے نچلی جانب ملحقہ رستوں میں کے جی بی کے خصوصی دستے ہنسنے اور سگریٹ کے کش لگانے میں مگن تھے۔ میں واپس گھر جانے ہی والا تھا کہ ماسکو کی کسی بھی عمر رسیدہ خاتون کے حلیے والی چرنینکو کی اہلیہ میت اٹھائے جانے سے پہلے اس پر باہیں پسارے گر پڑیں۔ کچھ لمحات کے لیے آخری رسومات روک دی گئیں جبکہ وہ میت پر لیٹی سسکیاں بھر رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غیر ملکی صحافی ماسکو میں بہت عجیب و غریب حالت میں رہے۔ حکومت کبھی فیصلہ نہ کر سکی کہ انہیں جاسوس کہے جن کا کام معلومات حاصل کر کے ہمیشہ منصوبے کھٹائی میں ڈالنا تھا یا ان سے خوشگوار مراسم استوار کرے اور انہیں اپنے حق میں ہموار کرے۔ دو مختلف حکمت عملیوں میں گومگو کی شکار حکومت نے بیک وقت دونوں کو ایک ساتھ کرنے کی کوشش کی۔ وزارت خارجہ صحافیوں کو سیر و تفریح کے لیے مختلف مقامات پر لے جاتی جو واپس ماسکو پلٹتے ہی اخبارات میں اپنے متعلق کہانیاں پڑھتے جن میں لکھا ہوتا کہ نمائندے الف اور ب نے سوویت مہمان نوازی پر اظہار تشکر کرنے کے بجائے الٹا ایسا رویہ اپنایا جسے بے باکانہ جاسوسی کے علاوہ کچھ اور قرار دینا مشکل ہے۔ واضح طور پر کے جی بی کی خفیہ اطلاعات کو بنیاد بنا کر مضامین ایسے قابل اعتماد دوست کے افسردہ لہجے میں لکھے جاتے جس کا اعتماد توڑ دیا گیا ہو۔
رہن سہن کی سہولیات بھی اسی طرح کے دو مختلف رویوں کا شکار تھیں: 1984 میں ماسکو کے اندر کل وقتی صحافی 300 کی تعداد میں تھے جو شہر کے مختلف حصوں میں صرف غیر ملکی افراد کی رہائش کے لیے مخصوص بیس اپارٹمنٹ بلاکس میں رہائش پذیر تھے۔ ہر ایک کے دروازے پر خاکی وردی پہنے پولیس اہلکار موجود رہتے تھے جن کا 24 گھنٹے یہی کام تھا کہ وہ ہر آنے جانے والے کا نام درج کر لیں۔ غیر ملکی افراد کو پاسپورٹ کے ساتھ اندر آنے کی اجازت تھی لیکن عام سوویت شہری کو صرف تب اندر جانے دیا جاتا جب وہاں مستقل رہنے والے افراد میں سے کوئی شخص ساتھ موجود ہو۔ اندر غیر ملکی افراد کو لگتا تھا کہ جو بھی لفظ وہ منہ سے نکالیں گے اسے کے جی بی ریکارڈ کر سکتی ہے۔
میں پپیٹ تھیٹر کے سامنے بھورے رنگ کی ایک نو منزلہ عمارت میں رہتا تھا جو ماسکو کے مرکزی حصے کے گرد دائرہ بناتی رِنگ روڈ پر واقع تھی۔ یہ عمارت صحافیوں اور سفارتی عملے کے درمیان تقسیم تھی۔ غیر ملکی برادری میں زیادہ تعداد سفارتی عملے کی تھی جو ایک صحافی کے مقابلے میں دس کے تناسب سے تھے، جہاں روز مرہ زندگی میں رسمی درجہ بندی کی غیر معمولی صورت شامل کرتے ہوئے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے سفیروں کو اوپر اور باقیوں کو نیچے رکھا گیا تھا۔ عشائیوں میں امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن سفیر میز کے آخر میں جبکہ کم تر درجے کے ممالک سے تعلق رکھنے والے درمیان میں بیٹھتے تھے۔ جلد ہی میری جان پہچان کیپ ورد جزائر کے سفیر اور ایک پادری سے ہوگئی جو انطاکیہ کے اہم ترین پادریوں میں سے ایک ہونے کا دعویدار تھے۔
غیر ملکی برادری انیسویں صدی کے کسی ناول کی طرح اوپرلی اور نچلی منزل کی کشمکش اور جھگڑوں کا شکار رہتی۔ لیکن اس میں سوویت یونین سے وابستہ مخصوص دباؤ کا بھی کردار تھا۔ ان عجیب و غریب خصوصیات کی بہترین مثال غیر ملکی رہائشیوں کے بچوں کو سنبھالنے والی آیا عورتوں کی ہے۔ ان کی زندگی آسان نہیں تھی۔ دنیا بھر کے غیر ملکی سفیر اس بات سے خائف رہتے کہ عملے کے کسی ایک فرد کی بھی جنسی بے راہ روی کا فوری نتیجہ سیاسی دھوکہ دہی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے اس لیے وہ اپنے سفارتی عملے کے اراکین کو جلد شادیوں پر زور دیتے اور اس وجہ سے وہاں چھوٹے بچوں کی تعداد بھی کافی تھی جنہیں کسی نگران کی ضرورت رہتی تھی۔
ان کا انتظام مشکل نہ تھا۔ روسی زبان کی تعلیم حاصل کرنے والی یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے والی لڑکی کے لیے ماسکو میں بطور آیا کام کرنے کے لیے ویزا حاصل کرنا مشکل نہ تھا۔ بدقسمتی سے زیادہ تر لڑکیاں سفارتی عملے کے بچوں کی دیکھ بھال کے بجائے ٹالسٹائی اور ترگنیوف کے ناول پڑھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد ان پر منکشف ہوتا کہ معمولی رقم کے لیے انہیں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ بے چینی بڑھی اور اس کے نتیجے میں مذہب کے احیا کی تحریک کو پھلنے کا موقع ملا جو کارل مارکس کے لیے کوئی انہونی بات نہ ہوتی۔ ایک صحافی کی آیا نے الوداع کہتے ہوئے اس کے کمرے میں تحریری کلمات چھوڑے۔ صحافی نے مجھے بتایا کہ ایک صبح بستر سے اترتے ہی انہیں مایوس کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے جوتوں میں ایک تحریر پڑی تھی کہ ’لارڈ مسیح میری حفاظت فرمانا۔ اس گھر میں شیطان رہتا ہے۔‘
غیر ملکی برادری کے مختلف افراد کو زبردستی ایک ساتھ رکھنے سے کلاسٹرفوبیا (بند جگہوں سے خوف محسوس ہونا) پیدا ہوتا اور میں دن میں ایک مرتبہ طویل چہل قدمی کے بہانے اس حصار سے نکل کر ماسکو کے مرکزی حصے کی طرف چلا جایا کرتا تھا جو سٹالن کی تعمیر کردہ چھ لین ہائی ویز کے علاوہ 1917 سے ابھی تک بہت کم تبدیل ہوا تھا۔ 1917 میں دفاتر اور رہائشی مکانات میں تبدیل ہونے والے چرچ اور خانقاہیں ابھی تک بنیادی روسی رنگوں سے مزین چلی آتی تھیں: ہلکا گلابی، ہلکا سبز، گہرا سرخ اور کریم کلر۔ ماسکو سے باہر جانے کے لیے غیر ملکی افراد کو دو روز پہلے وزارت خارجہ کو تحریری اطلاع دینا ہوتی تھی۔ اگر آپ کو اس کے بعد کسی نے کچھ کہا نہیں تو اس کا مطلب ہے آپ جا سکتے ہیں۔
انفرادی طور پر ان قدغنوں میں سے کوئی بھی غیر ملکی افراد کے لیے بہت گراں نہ تھی لیکن مجموعی طور پر ایک ساتھ ان سب سے نمٹتے ہوئے انہیں خود کو محصور کرنا بہت مشکل لگتا تھا۔ ماسکو میں میرے ابتدائی دنوں کے دوران ایک صحافی نے کہا تھا ’سوویت یونین کیا ہے؟ راکٹس سے لیس Upper Volta (افریقی ریاست برکینا فاسو کا پرانا نام)۔‘ ہفتے بعد عشائیے میں ایک سفارت کار نے یہی الفاظ دہرائے۔ سرکشی اور تضحیک کی آمیزش سے جنم لینے والے اعصابی بے چارگی کے آئینہ دار ایسے کئی لطیفے اگلے تین برسوں میں مجھے سننے کو ملے، حوصلہ افزا مبہم مذاق جسے سن کر مجھے بیروت میں رہنے والے عیسائی اور بیل فاسٹ کے پروٹسٹنٹ فرقے کے لوگ یاد آ جاتے۔ میں نے یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنے کی کوشش کی کہ بہت بڑی آفت جو مجھ پر ٹوٹ سکتی ہے وہ ہے روس سے در بدر کیے جانا۔
غیر ملکی سفارتی عملے اور جن سے ان کا رابطہ رہتا وہ دونوں فریق صحافیوں کی نسبت کڑی نگرانی کا نشانہ بنتے۔ ایک برطانوی سفارت کار نے مجھے بتایا کہ کیسے 1980 کی دہائی کے اواخر میں برطانوی سفیر نے سفارت خانے کو دانشوروں سے زیادہ روابط رکھنے کی اہمیت کے پیش نظر 150 دانشوروں کو ملکہ کی برتھ ڈے پارٹی میں شرکت کی دعوت دی جو کہ سال بھر کی سفارتی تفریحی تقریبات کی مرکزی تقریب تھی۔ تقریب کے دن محض تین دانشور تشریف لائے۔
یہاں تک کہ سوویت کی صورت حال کے مطابق بھی یہ بہت تھوڑی تعداد تھی سو سفارت خانے کے ڈرائیوروں، جو کہ سب روسی تھے، سے پوچھا گیا کہ انہوں نے دعوت نامے واقعی پہنچائے تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ماسکو کے دور دراز مضافات میں رہنے والے فن کاروں اور مصوروں کو اتنی لمبی مسافت طے کر کے خود جا کر بتانے کے بجائے انہوں نے دعوت نامے سوویت وزارت ثقافت کے حوالے کر دیے تھے کہ یہ متعلقہ دانشوروں تک پہنچا دیں جن سے پہلے ہی ان کا رابطہ رہتا تھا۔
سفیر کو اندازہ ہو گیا کہ وزارت ثقافت نے مدعو لوگوں کے ناموں پر سیاہ لکیر پھیرتے ہوئے دعوت نامے نذر آتش کر دیے ہوں گے، سو ڈرائیوروں کی سستی کی وجہ سے اپنے منصوبے کو یوں سبوتاژ دیکھ کر وہ شدید غصے میں آ گئے اور ان پر واضح کر دیا کہ اگر ایسا دوبارہ ہوا تو وہ سب کو ملازمت سے فارغ کر دیں گے۔
ملازمت سے سبکدوشی کے خطرے سے خائف اگلے سال ڈرائیور ماسکو کے دور دراز مضافات میں خود گئے اور اونچے رہائشی مکانات کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہر ناول نگار، مصور یا شاعر کو اپنے ہاتھوں سے دعوت نامے تھما آئے۔
لیکن وزارت ثقافت کی مار سفارت خانے کی سوچ سے کہیں زیادہ تھی۔ ملکہ کے جنم دن پر سفیر بے چینی سے پارٹی شروع ہونے کے ایک گھنٹہ بعد تک سفارت خانے کے صحن میں انتظار کرتے رہ گئے لیکن یہ دیکھ کر انہیں مایوسی ہوئی کہ محض تین دانشور ہی پہنچے اور یہ وہی تین لوگ تھے جو پچھلے سال آئے تھے۔
ایسے واقعات بدگمانی پر مبنی تھے، وزارت ثقافت جس حد تک دانشوروں کو روکنے کے لیے چلی گئی اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو دانشور کوئی اہم معلومات یا بنیادی راز افشا کر بیٹھیں جو سوویت یونین کو سمجھنے میں آسانی پیدا کر دے۔ صحافیوں کے درمیان بدنام زمانہ خیال کو اس نے مزید مضبوط کیا کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے افراد کے انٹرویوز اور ہدایات تک زیادہ رسائی جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بہتر تفہیم پیدا کرتی ہے۔
ماسکو میں اس خیال کو مزید تقویت سوویت یونین کے مطالعے کی پنپنے والی تعلیمی روایات سے ملتی تھی جس کے مطابق حکومت خلائی جہاز کی طرح ہے جو سوویت معاشرے کے سروں پر منڈلا رہا ہے اور لوگوں کو مکمل گرفت میں رکھنے کے لیے ساری توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ اگر یہ بات درست تھی تو پھر واضح طور پر صحافی کے پاس واحد ممکنہ راستہ خلائی جہاز کے اعلیٰ عہدے داروں سے نہیں تو اس پر موجود دیگر عملے کو تلاش کرنا اور ان میں سے کسی سے بات کرنا ہی رہ جاتا تھا۔
اس میں کسی حد تک صداقت تھی لیکن ماسکو میں چند ماہ کے بعد یہ صاف معلوم ہو گیا کہ مکمل اختیارات سے محروم خلائی جہاز کا عملہ مایوسی کے ساتھ ایسے اقدامات کے جواب فراہم کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو اس کے دائرہ کار میں آتے ہی نہیں تھے۔ ماسکو میں موجود چند غیر ملکی افراد کے لیے یہ اقدامات محض سطحی تھے جو سوویت یونین کے غیر متغیر چہرے کو چھپانے کی کوشش تھے۔ کچھ ماہرین کی تبدیل ہوتی صورت حال کو آسانی سے تسلیم نہ کرنے کی خواہش قابل فہم تھی کیونکہ اس سے ان کی خود ساختہ معلومات کے غبارے سے ہوا نکل جانی تھی۔
روس ان افراد کے لیے خصوصی کشش کا مرکز رہا جو سمجھتے رہے کہ گورباچوف، خروشیف اور سٹالن کا نیا جنم ہے یا Peter the Great or Ivan the Terrible کا دوبارہ اقتدار میں آنے جیسا ہے۔ کیوں کہ اس پر زیادہ سوچنا نہیں پڑتا اس لیے یہ ماننا آسان لگتا ہے کہ ہم محض پرانے نقش تازہ ہوتے دیکھ رہے تھے گویا سب مسائل کا حل روایتی تدابیر کے ذریعے کرنا چاہیے۔
کچھ بھی بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوتا کی حکمت عملی سے ابتدائی وابستگی کے متعلق مجھے ایک سفارت کار نے بتایا جس نے 1917 میں انقلابیوں کے اقتدار پر قبضے کے فوراً بعد برطانوی وزارت خارجہ کے دفتر کو مشورہ پیش کیا تھا۔ یورپی اتحادیوں کو خدشہ تھا کہ روس کے انقلابی بہت جلد جرمنی کے ساتھ علیحدہ امن معاہدہ کر لیں گے۔ روس کے امور کو سمجھنے والے ماہرین سے رائے طلب کی گئی کہ نئی حکومت کو کس طرح اپنے حق میں ہموار کیا جائے۔
کسی کے پاس کوئی خاص بات پیش کرنے کو نہیں تھی یہاں تک کہ ایک شخص نے بہت انوکھا منصوبہ پیش کیا۔ اس نے بتایا کہ روسیوں کے ساتھ طویل عرصے پر محیط تعلقات کے دوران اس نے دیکھا ہے کہ روسی آرائشی اشیا کے بہت شوقین ہیں۔ سو اس نے رائے پیش کی کہ اگر جرمنی سے ان کے مذاکرات تعطل میں ڈالنے ہیں تو برطانیہ کو چاہیے کہ لینن کو سر کا خطاب اور ٹراٹسکی کو اس سے کم تر لیکن کوئی عمدہ اعزاز عطا کیا جائے۔
© The Independent