صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں ایک بس میں دھماکے کے نتیجے میں نو چینی ملازمین کی ہلاکت کے بعد داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (ڈی ایچ پی پی) پر کام کرنے والی ایک چینی کمپنی نے اپنے پاکستانی ملازمین کی برطرفی کے احکامات واپس لے لیے ہیں۔
چائنا گیزوبا گروپ کمپنی نے 16 جولائی، 2021 کو ایک خط میں کہا تھا کہ وہ اپنے سارے پاکستانی ملازمین کو فارغ کرتے ہوئے پراجیکٹ پر کام بند کر رہی ہے۔
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (ڈی ایچ پی پی) کے ڈائریکٹر انوار الحق نے کام بند ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’یہ محض عارضی معطلیاں ہیں اور امید ہے عید کے بعد ملازمین کو دوبارہ رکھ لیا جائے گا اور کام بھی شروع ہو جائے گا۔‘
تاہم ہفتے کی شام کمپنی کا ایک اور مختصر خط سامنے آیا ہے جس میں اس نے پاکستانی ملازمین کی برطرفی سے متعلق اپنے پچھلے حکم نامے کو کالعدم قرار دیا ہے۔ کمپنی نے نئے خط میں پراجیکٹ پر کام جاری رکھنے کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔
14 جولائی کو ضلع کوہستان کے علاقے داسو میں چینی کارکنوں کو کام پر لے جانے والی بس میں بم دھماکے کے نتیجے میں نو چینی باشندوں سمیت 13 افراد ہلاک جبکہ 28 زخمی ہوئے تھے۔
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (داسو ڈیم) پر پاکستانی کمپنیوں کے علاوہ پانچ چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جن میں سے چائینا گیزوبا گروپ کمپنی (سی جی جی سی) کو اہم ذمہ داریاں ملی ہوئی ہیں۔
داسو ڈیم پر کام کرنے والے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ سی جی جی سی ڈیم کی زیر زمین سرنگوں کے لیے کھدائیوں کے کاموں کی ذمہ دار ہے۔
’یہ ڈیم کی تعمیر میں سب سے اہم کام ہے اور لگتا ہے کہ اسی لیے اس کے ملازمین کو نشانہ بنایا گیا۔‘
بم دھماکے کا نشانہ بننے والی بس میں سی جی جی سی کے اہلکار سوار تھے، جنہیں ان کی رہائش گاہوں سے کام پر لے جایا جا رہا تھا۔
سی جی جی سی نے اپنے ملازمین کو 16 جولائی کو لکھے گئے ایک خط میں ملازمتوں سے فارغ کرتے ہوئے انہیں 15 دنوں کی تنخواہ اور گریجویٹی دینے کا وعدہ کیا تھا۔
داسو ڈیم پر کام کرنے والے ایک اور سینیئر اہلکار نے بتایا کہ سی جی جی سی کے پاس تقریباً دو ہزار پاکستانی اور 400 چینی ملازمین ہیں، جن میں سے 80 فیصد پاکستانی غیر ماہر سٹاف کو فارغ کیا گیا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا: ’صرف ضروری سٹاف کو نہیں نکالا گیا، جو زیر زمین سرنگوں میں پانی کے رسنے وغیرہ کے کام کو دیکھتا ہے۔‘
ڈیم پر کام کرنے والے سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ اب عید کے بعد ہی کام شروع ہو سکے گا۔ ’ابھی سکیورٹی کے ایس او پیز بنائے جائیں گے کیونکہ یہ بہت بڑا واقعہ تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ داسو بس دھماکے میں دہشت گردی کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
چین کی حکومت نے پاکستان کو واقعے کی تحقیقات اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
چین نے 16 جولائی کو شیڈول سی پیک کے جائنٹ کوآپریٹیو کونسل (جے سی سی) کے دسویں اجلاس کو عید کی چھٹیوں کے بعد تک موخر کر دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے چینی ہم منصب سے جمعرات کو فون پر رابطہ کر کے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان تحقیقات کے سلسلے میں تمام وسائل اور کوششیں بروئے کار لائے گا۔
واقعے کی تحقیقات کے لیے پاکستان آنے والی چین کی ایک کثیرالمحکماتی ٹیم ہفتے کو داسو میں جائے وقوعہ پر پہنچی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ہفتے کو میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ داسو بس بم دھماکے کی تحقیقات آخری مراحل میں ہیں اور جلد ہی مجرموں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے مختلف ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چینی تفتیش کاروں نے ہفتے کو پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر داسو میں اس مقام کا معائنہ کیا جہاں چینی ملازمین کی بس میں دھماکہ ہوا تھا۔
پاکستانی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ توقع ہے کہ چینی تفتیش کار چارگھنٹے تک جائے وقوعہ پر موجود رہیں گے اور اس کا بغور جائزہ لیں گے۔
دو دوسرے سرکاری ذرائع نے بھی چینی اور پاکستانی حکام کے جائے وقوعہ پر جانے کی تصدیق کی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ اور ملکی فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے نے اس حوالے سے تبصرے کی درخواستوں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔