ہارون کرامت کی زندگی میں 2007 کا سال بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس سال انہیں بخار ہوا جو بگڑ کر ٹائیفائیڈ کی شکل اختیار کر گیا۔
دو ماہ بعد ٹائیفائیڈ تو ٹھیک ہو گیا، لیکن ہارون کے لیے اندھیرے چھوڑ گیا، کیونکہ ان کی آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی۔
بینائی کے چلے جانے نے راولپنڈی کے ہارون کو جیسے توڑ کر رکھ دیا۔ اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’وہ بہت مشکل وقت تھا، میری سوچیں منتشر تھیں اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ آگے زندگی میں میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔‘
تمام تر مایوسیوں اور ناامیدیوں کے باوجود ہارون نے اپنے بچپن کے شوق موسیقی میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کی، اور 2011 میں راولپنڈی آرٹس کونسل سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے پہنچ گئے۔
اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ بینائی سے محروم یہ نوجوان شاید زندگی کے کسی میدان میں کوئی خاص کام نہیں کر پائے گا، لیکن ہارون کرامت نے اپنی ہمت، جذبے اور موسیقی کے لیے شوق کے بل بوتے پر تعلیم حاصل کرنا جاری رکھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہارون کرامات آج بھی یاد کرتے ہیں: ’شروع میں مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ بغیر دیکھے میں کی بورڈ پر بٹن کیسے تلاش کروں، لیک میں لگا رہا اور کی بورڈ سے کھیلتا رہا۔‘
کسی نے کیا خوب کہا ہے: ’ہمت مرداں مدد خدا۔‘ اور یہی ہارون کرامت کے ساتھ ہوا، انہوں نے ہمت کی، محنت کرتے رہے اور آہستہ آہستہ انہیں کی بورڈ کے تمام بٹن اور کیز جیسے ازبر ہو گئیں۔
’اب میری انگلیاں چلتی ہیں اور کی بورڈ بچتا ہے، مجھے سوچنا بھی نہیں پڑتا کہ ہاتھ کدھر لے کر جاوں، میری انگلیا خود ہی کیز کو تلاش کر لیتی ہیں اور انہیں دباتی ہیں۔‘
آج ہارون کرامت پنجابی ریپر ہیں، اور دیسی انداز میں ٹھیٹھ پنجابی میں سننے والوں کو محظوظ کرتے ہیں۔
’اب کی بورڈ بجاتے ہوئے مجھے محسوس نہیں ہوتا کہ میں کسی بھی طرح دوسرے فنکاروں سے مختلف ہوں، میں بالکل دوسروں کی طرح ہی بجاتا اور گاتا ہوں۔‘
ہارون کرامت نہ صرف ریپ (rap) گاتے ہیں، بلکہ ریپ لکھتے ہیں اور اپنا میوزک بھی خود ہی کمپوز کرتے ہیں، اور اپنے فن کا مظاہرہ کئی تقریبات میں کرتے رہتے ہیں۔
’بے بی گرل‘ اور ’ماہیا‘ کے نام سے ان کے دو گانے لانچ ہو چکے ہیں جبکہ دو تین گانے ابھی آنا ہیں۔