پاکستان کی سپریم کورٹ نے رحیم یار خان میں مندر پر حملے میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ مندر کی بحالی کے اخراجات بھی انہی ملزمان سے لیے جائیں۔
رحیم یار خان میں مندر پر مشتعل افراد کے حملے کے کیس کی سماعت جمعے کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس قاضی امین نے کیس کی۔
اس موقع پر آٸی جی پنجاب، سیکرٹری پنجاب اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل عدات میں پیش ہوٸے۔
کمرہ عدالت میں پوری سماعت کے دوران آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب اور رمیش کمار عدالت میں ججز کے سامنے روسٹر پر کھڑے رہے۔
سماعت کے دوران ججزر کا رویہ رمیش کمار اور حکومتی افسران کے ساتھ بلکل مختلف رہا۔ رمیش کمار جب بھی ججز کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے تو ججز کی جانب سے انتہائی تحمل اور نرم لہجے میں جواب دیا جاتا مگر اس کے برعکس دوران سماعت حکومتی افسران کی سرزنش ہوتی رہی اور وہ خاموشی سے سنتے رہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ اس واقعے کو تین دن ہو گٸے مگر تاحال ایک بندہ بھی گرفتار نہیں ہو سکا ہے۔
پولیس اہلکاروں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جس ایس ایچ او نے آٹھ سالہ بچے کو گرفتار کیا انہیں نوکری سے فارغ کر دینا چاہیے۔
اس پر آٸی جی پنجاب نے جواب دیا کہ پولیس افسر کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف محکمانہ کارراوٸی کی جائے گی لیکن انہیں نوکری کرنے کا حق ہےت جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معطل کرنے سے کچھ نہیں ہوتا یہ صرف دکھانے کے لیے ہوتا ہے۔
آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ’پولیس تمام واقعے کے دوران تماشائی بنی رہی۔ پولیس کا کام حملہ آوروں کو روکنا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پولیس نے آٹھ سال کے بچے کو گرفتار کر لیا اور جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔ ’اس کیس میں تو ایس ایچ او بھی ضمانت دے سکتا تھا۔‘
آٹھ سالہ بچے کی گرفتاری پر چیف جسٹس نے آئی جی پنجاپ سے سوال کیا کہ ’کیا پولیس اپنا دماغ استعمال کرتی ہے کہ نہیں؟ آٹھ سال کے بچے کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ مسلمان ہے یا ہندو۔‘
چیف سیکرٹری پنچاب کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ’آپ کے سیکرٹریز، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کیا کر رہے ہیں؟‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’اس واقعے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ سب کچھ نہیں کر رہے بس مراعات کے مزے لے رہے ہیں۔‘
انہوں نے چیف سیکرٹری کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو تو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ آپ میں کوئی ولولہ ہی نہیں صوبہ کیسے چلائیں گے؟‘
سماعت کے دوران تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نے عدالت کو بتایا کہ ’بچے کو مدرسے میں پکڑ کر مارا گیا جس کی وجہ سے اس کا پیشاب نکلا، لہٰذا مدرسے کی سی سی ٹی وی فوٹیج منگوائی جائے۔‘
سپریم کورٹ نے آٸی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 13 اگست تک ملتوی کر دی ہے۔
سماعت کے بعد انڈیپنڈںٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے رمیشن کمار کا کہنا تھا کہ وہ انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا جاتا تو ایسے واقعات نہ ہوتے۔
’ایسے واقعات پہلے بھی ہوئے مگر ملزمان کو سزا نہیں ہوتی۔ گرفتار ہوتے ہیں پھر چھوٹ جاتے ہیں اور کئی کیسز میں تو گرفتار بھی نہیں ہوئے۔‘
رمیش کمار نے کہا کہ ’آئی جی پنجاب نے مجھے بتایا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان انہیں پیغام بھیجا ہے کہ ملزمان کو چھوڑنا نہیں ہے۔‘
قومی اسمبلی میں مندر پر حملے کے خلاف قرارداد منظور
دوسری جانب قومی اسمبلی میں رحیم یار خان میں مندر پر ہونے والے حملے کے خلاف جمعے کو وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔
علی محمد خان نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور ایوان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا عزم کرتا ہے۔‘