وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے لاہور سے حراست میں لیے جانے والے سینئر صحافی عامر میر اور شفقت عمران کو عدلیہ، سکیورٹی اداروں اور حکومت مخالف بیانات پر حراست میں لیا گیا تھا جنہیں اب رہا کر دیا گیا ہے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دیگر صحافی رہنماؤں کے ساتھ ایف آئی اے کے آفس پہنچے جہاں حکام نے انہیں بتایا کہ حراست میں لیے گئے دونوں صحافیوں پر حکومت، عدلیہ اور سکیورٹی اداروں کے خلاف من گھڑت تحریریں لکھنے اور بولنے کا الزام ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق دونوں صحافیوں سے تحریری طور پر موقف لیا گیا اور ان کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد شخصی ضمانت پر رہا کردیا ہے تاہم ان سے وضاحتی بیان لکھوایا گیا ہے۔
حراست میں لیے گئے صحافی شفقت عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں اور عامر میر کو ایف آئی اے سائیبر ونگ نے حراست میں لیا انہیں بتایا گیا کہ ایک شہری کی درخواست پر مقدمہ درج ہوا جس میں ان دونوں پر ریاست، عدلیہ اور فوج مخالف بیانات کا الزام لگایا گیا تھا۔
عمران شفقت نے بتایاکہ ڈائریکٹر ایف آئی اے کو ان کی موجودگی میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا فون آیا اور انہوں نے بتایاکہ یہ مقدمہ کافی پرانا ہے وہ خود اسے دیکھ رہے ہیں اس لیے وہ قانون کے مطابق معاملہ حل کریں۔
جس کے بعد ان دونوں صحافیوں شفقت عمران اور عامر میر سے بیان حلفی دینے کا کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ صحافیوں کا موقف تھا کہ انہوں نے کوئی بے بنیاد بیان بازی یا تحریری لکھی نہیں تو وہ حلفی بیان کیوں دیں؟
عمران شفقت کے مطابق انہوں نے وضاحتی بیان لکھا کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں ان پر کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوتا انہوں نے آئین کے مطابق اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کیں جو وہ ادا کرتے رہیں گے۔
اس کے بعد دونوں صحافیوں کو ایف آئی اے نے جانے کی اجازت دے دی ہے۔
ایف آئی اے کا موقف
اس رہائی کے بعد ایف آئی اے نے بھی اپنا موقف جاری کر دیا ہے۔
ایف آئی اے کے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق دونوں صحافیوں کو ’یوٹیوب پر چلنے والے دو چینلز گوگلی اور ٹیلنگز میں ایسے پروگرامز اور بیانات نشر کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا جن میں قومی سلامتی کے اداروں اور اعلی عدلیہ کی بنیاد کو کمزور کرکے عوام کے ان اداروں پر اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور خواتین کے ساتھ بھی تضحیک آمیم رویہ رکھا گیا۔‘
ایف آئی اے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے لیکن تفتیش جاری ہے۔ ’ملزمان کے خلاف مزید ثبوت جمع کرکے چالان عدالت میں جمع کرایا جائے گا۔‘
اس سے قبل صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک ہی دن میں دو سینیئر صحافیوں عامر میر اور عمران شفقت کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
صحافی عامر میر سینیئر صحافی اور کالم نگار حامد میر کے بھائی ہیں۔
دونوں صحافیوں کو پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے حراست میں لیا تھا۔
تاحال دونوں کے خلاف کوئی مقدمہ سامنے نہیں آیا۔ اہل خانہ کے مطابق دونوں کو گرفتاری سے پہلے کوئی نوٹس بھی موصول نہیں ہوا۔
اینکر حامد میر کے مطابق ان کے بھائی عامر میر کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے حراست میں لے کر ان کا موبائل اور لیپ ٹاپ رکھ لیا ہے۔ حامد میر کے مطابق ’ہمیں پانچ گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ انہیں ایف آئی نے پکڑا ہے۔‘
FIA Cyber Crimes Wing Lahore kidnapped journalist Amir Mir in Lahore this morning, snatched his phone and laptop. We came to know about his location after 5 hours. FIA also arrested another journalist Syed Shafqat Imran this morning from Lahore. #PressFreedom
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) August 7, 2021
دوسری جانب صحافی عمران شفقت کے بھائی عبادالرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان (عمران شفقت) کی رہائش گاہ لاہور لال پل کے قریب ہے۔ آج بروزہفتہ دن بارہ بجے آٹھ افراد آئے جن میں سے دو یونیفارم میں تھے۔ ان افراد نے دروازے پر دستک دی اور عمران شفقت کو حراست میں لے لیا۔‘
ان کے مطابق گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں بتائی صرف اتنا بتایا کہ ’ہم ایف آئی اے سے ہیں تاہم کسی مقدمے کا ذکر نہیں کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبادالرحمن کا کہنا تھا کہ ’گرفتاری سے قبل عمران شفقت کوکوئی نوٹس موصول نہیں ہوا تھا۔‘
صحافی عمران شفقت گزشتہ دو دھائیوں سے جیو، ایکسپریس، بول سمیت کئی صحافتی اداروں میں کام کر چکے ہیں۔
اہل خانہ کے مطابق میڈیا اداروں کی ڈاؤن سائزنگ کا شکار ہونے کے بعد عمران شفقت یوٹیوب چینل چلا رہے تھے اور اسی سے گزر بسر ہو رہی تھی۔
عمران شفقت کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ’ہم ایف آئی اے آفس کے باہر موجود ہیں ہماری ملاقات بھی نہیں کرائی جارہی نہ ہی کوئی تفصیل بتا رہا ہے۔‘
عامر میر بھی کئی اداروں میں صحافتی فرائض انجام دے چکے ہیں اور جی این این نیوز کے سی ای او کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد انہوں نے اپنا ڈیجیٹل نیوز نیٹ ورک بنا لیا تھا۔
اس معاملے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے نے باقاعدہ کوئی موقف نہیں دیا تھا تاہم سائبر کرائم ونگ کے ذرائع نے دونوں صحافیوں کو عدلیہ اور فوج پر تنقید کرنے کے الزامات پر حراست میں لینے کی تصدیق کی تھی۔