پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے افغانستان اور بھارت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس استعمال ہو رہے ہیں۔
بدھ کو وفاقی حکومت کے شعبہ اطلاعات میں وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے ہمراہ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جیسے ہی افغانستان سے امریکہ کا انخلا ہوا ویسے ہی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی مہم شروع کر دی گئی ہے اور حالیہ ٹوئٹر ٹرینڈز اسی مہم کا حصہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر اس چیز کو بے نقاب کریں گے جو کہ دراصل ای یو ڈس انفو لیب کی کڑیاں ہیں۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ برس یورپ کی ایک تحقیقاتی این جی او ’ای یو ڈس انفو لیب‘ کی رپورٹ میں بھارت کے مفادات کی خاطر اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو اثر انداز کرنے کے لیے جعلی این جی اوز اور خبروں کی ویب سائٹس کا 15 سال پر محیط آپریشن بےنقاب کیا گیا تھا۔ ’انڈین کرونیکلز‘ نامی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دنیا کے 116 ممالک میں 750 سے زائد جعلی خبروں کی ویب سائٹس میں جعلی صحافی پاکستان کے خلاف جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلا رہے تھے۔
پریس کانفرنس کے دوران معید یوسف نے بتایا کہ بھارت اور افغانستان کے چند اعلیٰ حکام بھی پاکستان مخالف ٹرینڈز میں حصہ لیتے ہیں۔
اس موقع پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ اس سلسلے میں پاکستانی ماہرین نے ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے، جس کی مفصل رپورٹ ویب سائٹ پر جاری کر دی جائے گی۔
دو روز قبل SanctionPakistan# کے نام سے پاکستان مخالف ٹرینڈ کا ڈیٹا اینالسس قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس ٹرینڈ میں کل 15 ہزار ٹویٹس کی گئیں، جس کے لیے دو ہزار سے زیادہ اکاؤنٹس کا استعمال کیا گیا۔ اس ٹرینڈ میں حصہ لینے کے لیے دنیا کے نو ممالک کے 79 شہروں سے ٹویٹس کی گئیں لیکن پاکستان، آسٹریلیا اور افغانستان سے سب سے زیادہ ٹویٹس ہوئیں۔ پاکستان میں کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد سے سب زیادہ ٹویٹس کی گئیں۔
پاکستانی وزارت اطلاعات کے سوشل میڈیا ونگ کی جانب سے کیے جانے والے ڈیٹا اینالیسس کے مطابق اس ٹرینڈ کی رسائی 51 لاکھ افراد تک ہوئی۔
پاکستان کے سوشل میڈیا اینالسس کے مطابق ان ٹرینڈز میں مینشنز اور کوٹ ٹویٹس کے مقابلے میں ری ٹویٹس کی تعداد زیادہ ہے اور اس میں زیادہ تر مردوں نے حصہ لیا ہے جبکہ خواتین کے اکاؤنٹس کی تعداد بہت کم ہے۔
وزیر اطلاعات و نشریات اور وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کی مشترکہ نیوز کانفرنس سے چند گھنٹوں قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی پاکستان مخالف ٹرینڈز پر گفتگو کر چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ دنوں کے دوران چلائے جانے والے پاکستان مخالف چند سوشل میڈیا ٹرینڈز کا ہم نے باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور ان کا کھوج لگانے پر معلوم ہوا ہے کہ ان میں زیادہ تر مصنوعی تھے اور سوچی سمجھی گھناؤنی مہم کا حصہ تھے جو کہ ’بوٹ کنٹرولڈ‘ تھی۔‘
وہ بدھ کو اسلام آباد میں عراقی ہم منصب فواد حسین کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مخالف سوشل میڈیا ٹرینڈز اس مہم کا حصہ تھے، جس کا مقصد افعانستان کی اندرونی صورتحال سے توجہ ہٹا کر ملبہ پاکستان پر ڈالنا تھا۔
ان کے مطابق: ’ہمیں ان سے ہمدردی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ہم افغانستان میں قیام امن، استحکام اور علاقاتی یکجہتی کے لیے جو کرسکتے ہیں کر رہے ہیں، اور کرتے رہیں گے اور اس پر معذرت خواہانہ رویہ نہیں اختیار کریں گے۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’جب میں آپ سے مخاطب ہوں تو ہمارا ایک وفد دوحہ میں موجود ہے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے عملی کردار ادا کر رہا ہے جہاں امریکہ، روس اور چین کے وفود بھی موجود ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ دوحہ میں ’ٹرائیکا پلس‘ ملاقات کر رہا ہے جو مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کوشش میں ہے۔ افغانستان میں امن سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ پاکستان اکیلے یہ کام نہیں کر سکتا۔ خطے کی قوتوں کو ساتھ آنا ہوگا۔‘
شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں طالبان کے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضوں کے تناظر میں سوال کیا کہ ’اگر زیادہ سے زیادہ صوبائی دارالحکومتوں پر ایک گروپ قبضہ کر رہا ہے تو کیا پاکستان کو اس کا قصوروار قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہمارے کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ ہم تاریخ کی درست سمت میں ہیں۔‘