گذشتہ ماہ لاہور میں ماڈل نایاب کے قتل کی ایف آئی آر درج کروانے والے ان کے سوتیلے بھائی ہی قاتل نکلے اور پولیس کے مطابق ماڈل کو ان کے سوتیلے بھائی نے مبینہ طور پر ’غیرت کے نام پر قتل‘ کیا۔
پیر کو ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا: ’ماڈل نایاب کے قاتل ان کے سوتیلے بھائی ناصر علی کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ملزم نے اقبال جرم کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی سوتیلی بہن کی آوارہ گردی اور ماڈلنگ سے تنگ تھے۔‘
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شارق جمال کے مطابق مقتولہ نایاب کے ڈیفنس میں واقع ذاتی گھر کی مالیت سات سے آٹھ کروڑ روپے ہے اور ملزم ناصر علی اسے بھی ہتھیانا چاہتا تھا۔
شارق جمال کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ انہوں نے کسی مشروب میں نشہ آور چیز ملا کر نایاب کو پلایا جس سے وہ بے ہوش ہو گئیں، اس کے بعد انہوں نے نیم بے ہوش نایاب کے گلے میں انہی کا دوپٹہ ڈال کر گلا گھونٹ دیا۔
شارق جمال نے بتایا کہ ملزم ناصر سے آلہ قتل دوپٹہ، نشہ آور مشروب کی بوتل اور وغیرہ برآمد کرلی گئی ہے۔
پولیس کے ایک سینئیر اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نایاب کو ان کے اسی سوتیلے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کیا، جنہوں نے پولیس کو اطلاع دی اور مدعی کے طور پر ایف آئی آر بھی درج کروائی۔‘
اچھرہ کے رہائشی ملزم ناصر علی نے جب ایف آئی آر درج کروائی تھی تو اس میں لکھا تھا کہ وہ نایاب کے گھر آیا جایا کرتے تھے کیونہ وہ ڈیفنس کے علاقے میں اکیلی اپنے ذاتی گھر میں رہتی تھیں اور ان کی ضرورت کی اشیا ان تک پہنچانے کے لیے وہ تقریباً ہر روز ان کے گھر کا چکر لگاتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایف آئی آر میں ناصر نے لکھوایا تھا کہ ’نو جولائی کی رات وہ نایاب کو آئس کریم کھلانے کے لیے گلبرگ لے کر گئے اور اس رات تقریباً پونے دو بجے انہہں ان کے گھر چھوڑا جب کہ دس جولائی کی رات کو بھی وہ جب معمول کے مطابق ان کے گھر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے واش روم کی کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی اور جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو نایاب نیم برہنہ حالت میں مردہ پڑی تھیں۔‘
تاہم مذکورہ پولیس اہلکار کے مطابق: ’نایاب کے سوتیلے بھائی نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ انہوں اپنی بہن کو غیرت کے نام پر قتل کیا اور گلہ دبا کر مارنے کے بعد انہوں نے انہیں نیم برہنہ کر دیا تاکہ پولیس کو یہ شک ہو کہ انہیں ریپ کے بعد قتل کیا گیا ہے۔‘
پولیس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے جائے وقوعہ سے مختلف شواہد اکٹھے کیے جس میں سب سے اہم نایاب کے بھائی کے فنگر پرنٹس تھے، جو دروازوں کے ہینڈلز سے ملے۔ ’ان کے گھر میں اس روز صرف وہی آئے تھے اور وہاں انگلیوں کے نشان بھی صرف نایاب اور ان کے بھائی کے ملے ہیں۔‘
نایاب کے قتل کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے بھی ان کے سوتیلے بھائی اور مدعی ناصر علی سے فون پر رابطہ کیا تھا۔ تب انہوں نے وقوعے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی بلکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ’انتہائی دکھ کی حالت میں ہیں اور میڈیا سے درخواست کرتے ہیں کہ میڈیا انہیں فون کرکے تنگ نہ کرے۔‘
نایاب کی والدہ نے دو شادیاں کی تھیں۔ ان کے پہلے شوہر سے ان کے دو بیٹے تھے جب کہ دوسری شادی سے نایاب پیدا ہوئیں۔
نایاب کے والد ان کی والدہ کو کافی عرصہ پہلے طلاق دے چکے تھے۔ نایاب ایک مشہور پنجابی گانے ’گڈی تو منگاویں تیل میں پوانی آں‘ میں بھی جلوہ گر ہوچکی ہیں لیکن کچھ عرصہ قبل وہ ماڈلنگ کی دنیا سے دور ہوگئی تھیں۔