پنڈال سے دور ایک ٹینٹ کے نیچے سونے والا یہ شخص سپاہی زین اللہ کاکڑ کا والد ہے، جو بم دھماکے میں اپنے بیٹے سمیت دیگر دو لیویز اہلکاروں کی موت کے خلاف دیے جانے والے دھرنے میں شریک ہیں۔
طویل دھرنے کے بعد وہ کچھ دیر آرام کے لیے اس خیمے میں آئے ہیں۔
دوسروں کی طرح وہ بھی اس امید کے ساتھ یہاں ایک ہفتے سے بیٹھے ہیں کہ ان کی جدوجہد رنگ لائے گی اور ان کے عزیزوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
بلوچستان کے ضلع پشین میں زیارت کراس پر گذشتہ ہفتے مانگی ڈیم کے قریب بم دھماکے کا نشانہ بننے والے تین لیویز اہلکاروں کے لواحقین نے دھرنا دے رکھا ہے۔
دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ ضلع زیارت اور ہرنائی سے فرنٹیئر کور( ایف سی) کو نکالا جائے، ڈی سی زیارت کو فوری برطرف کیا جائے، واقعے کا مقدمہ ڈی سی زیارت اور ایف سی کے خلاف درج کیا جائے اور تحقیقات کے لیے جوڈیشنل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
میجر رسالدار میر زمان کاکڑ کے چچا محبت خان پانیزئی اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں چونکہ کوئٹہ میں ہوتا ہوں اور مجھے اطلاع دی گئی کہ میجر کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا ہے۔ ’اطلاع دینے والا میرا عزیز رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میجر صاحب پر فائرنگ ہوئی ہے اور بعد میں بتایا گیا کہ اس کی لاش کوئٹہ منتقل کی جا رہی ہے۔‘
محبت خان نے بتایا کہ ’جب میں پہلے سی ایم ایچ اور بعد میں سول ہسپتال پہنچا تو میں نے وہاں کچھ دیر انتظار کیا اور شام کے وقت جب ایمبولینس سے میت اتاری گئی تو سالم حالت میں نہیں تھی۔‘
’یہ لاش ٹکڑوں میں تھی اور کچھ حصہ ایک تھیلے اور کچھ دوسرے میں تھا۔ جسے دیکھ کر میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہا۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’پھر مجھ میں قوت آگئی اور میں ان ٹکڑوں کو اٹھا کر اندر لے گیا، وہاں ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ہم نے اسے ایک انسانی ڈھانچے کی شکل دینے کی کوشش کی۔‘
’یہ اتنا آسان نہیں تھا اور میں اندرونی طور پر بہت درد محسوس کررہا تھا۔ جسے باہر سے دیکھنے والا کوئی محسوس نہیں کرسکتا تھا۔ ‘
یہ صرف ایک میر زمان کے خاندان ہی کی نہیں بلکہ ان تین خاندانوں کی داستان ہے جنہوں نے اس حادثے میں اپنے گھر کے کفیل اور سہاروں کو کھویا ہے۔
زیارت میں دھرنا دینے والی کمیٹی کے ممبر امین اللہ پانیزئی سمجھتے ہیں کہ یہ دھرنا اس لیے دیا گیا کہ وہ اپنے آنے والی نسل کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔
امین اللہ نے بتایا کہ ’دھرنے کو نو روز گزر گئے ہیں۔ ہم نے جو مطالبات رکھے ان میں سے ایف سی کو نکالنے اور جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل ہے، وہ اہم ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دھرنا کمیٹی کے ممبر امین اللہ کہتے ہیں کہ ’اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایف سی کے اہلکار لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا کہ ’لیویز اہلکار مدثر اور زین اللہ نے ایف سی اہلکاروں کو گھروں میں گھسنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کسی سے شکایت ہے تو انہیں بتایا جائے وہ انہیں گرفتار کرکے ان کے حوالے کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس حوالے سے علما سے بات کی ہے۔ جنہوں نے بتایا کہ کسی بھی جگہ پر مستقبل بچانے کے لیے یہ طریقہ درست ہے۔‘
امین پانیزئی کہتے ہیں کہ ہمارے مطالبات میں معاوضے شامل نہیں ہیں۔
دھرنا کمیٹی کے ممبر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مطالبات حکومت کے سامنے ہیں۔ صوبائی حکومت کی طرف سے جو لوگ آئے انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ مطالبات تسلیم کر لیے جائیں گے۔ اب وہ بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔‘
’یہ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت کا دھرنا نہیں بلکہ ہم نے یہ لواحقین کے کہنے پر دے رکھا ہے جو خود بھی یہاں موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ لواحقین کا بھی کہنا ہے کہ یہ دھرنا ہمارے مستقبل سے جڑا ہے اور ہم مطالبات کے تسلیم ہونے تک یہ سلسلہ جاری رکھیں گے چاہے اس میں مہینے لگ جائیں۔
ادھر حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ حکومت نے مانگی ڈیم میں ہلاک ہونے والے لیویز اہلکاروں کے ورثا کے لیے 30، 30 لاکھ روپے معاوضے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رسالدار میجر میر زمان کاکڑ اور نائب رسالدار مدثر حسین کاکڑ کے ورثا کو 50، 50 لاکھ کے پلاٹ بھی دیے جائیں گے جبکہ سپاہی زین اللہ کاکڑ کے ورثا کو 10 لاکھ کا پلاٹ دیا جائے گا۔
لیاقت شاہوانی کے مطابق لیویز اہلکاروں کے بچوں یا لواحقین کو سرکاری ملازمتیں بھی فراہم کی جائیں گی۔
دوسری جانب دھرنا کمیٹی کی جانب سے احتجاج میں وسعت لانے کے لیے جمعہ کو بلوچستان کے شہروں جن میں کوئٹہ سمیت زیارت، پشین، لورالائی، چمن، ہرنائی، رود ملازئی، خانوزئی میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
جبکہ سنیچر کو بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور اتوار کو پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔