پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح پاکستان خصوصاً قبائلی اضلاع کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں ان سے خیبرپختونخوا میں ضم کیے گئے اضلاع جہاں 2001 کے بعد شدت پسندی نے سر اٹھایا تھا، اور کابل میں طالبان کی آمد سے خدشات اور توقعات کے بارے میں بات ہوئی۔
ان کا کہنا تھا: ’اللہ کرے ان کی پیش گوئی غلط ثابت ہو کیونکہ ہم امن چاہتے ہیں۔‘
منظور پشتین کا موقف ہے کہ انہوں نے جلسے جلوسوں اور بیانات کے ذریعے ایک سال قبل کہنا شروع کر دیا تھا کہ دوحہ معاہدے اور امریکی انخلا کے بعد یہاں کی سیکورٹی صورت حال دگرگوں ہوسکتی ہے۔ ’اب پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان متحرک ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔‘
پاکستانی طالبان کی جانب سے نہ صرف حملوں کی اطلاعات مل رہی ہیں بلکہ انہوں نے حالیہ دنوں میں میڈیا کو دھمکی بھی دی کہ انہیں دہشت گرد یا شدت پسند نہ لکھا جائے۔
منظور پشتین نے سوال اٹھایا کہ افغان سرحد پر باڑ لگنے کے بعد اس قسم کے واقعات کا ہونا قابل تشویش ہے۔ ’افغان طالبان کا کابل میں آنا کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ہم ایک سال پہلے سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ عسکریت پسند کہاں سے کس راستے سے آ رہے ہیں؟‘
ان سے سوال کیا گیا کہ جب ٹی ٹی پی سکیورٹی فورسز کو ہی نشانہ بنا رہی ہے تو وہ انہیں کیوں نطر انداز کریں گے۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’وہ افسران اور سیاست دان جو فتح کا جشن منا رہے تھے اب ان سے پوچھا جائے کہ ان سے کیا ان کو تقویت نہیں ملی۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے کے پختون جنگ سے تنگ آچکے ہیں۔ ’ہمارے ہاں کوئی ایسا چوک نہیں رہا جو شہید کے نام سے منسوب نہ ہو۔‘
وہ اس بات سے بظاہر متفق نہیں تھے کہ ان حملوں کی افعانستان میں منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا: ’یہ تو پاکستانی سرحد کے اندر 80 کلومیٹر، ڈیڑھ سو کلومیٹر میں کر رہے ہیں۔ اب تو افغانستان میں ان کی حکومت ہے تو پھر (حملے) کیوں ہو رہے ہیں؟‘
حالات کے خراب ہونے کی صورت میں پی ٹی ایم کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ پرامن اور عدم تشدد کے راستے سے عوامی رائے استوار کرتے رہیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خود ان کی تحریک کے چند سرکردہ رہنما جیسے کہ ایم این اے محسن داوڑ کی علحیدگی اور نئی جماعت بنانے کے فیصلے کے حوالے سے پوچھا گیا کہ ان کو کتنا بڑا دھچکا لگا ہے تو ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں عوام پی ٹی ایم کے ساتھ ہے۔ چند لوگوں کے جانے سے شاید اتنا فرق نہ پڑے۔‘
منظور پشتین پہلے دن سے پارلیمانی سیاست کے خلاف رہے ہیں۔ ماضی میں بھی دو سرکردہ اراکین کی جانب سے الیکشن لڑنے کے موقع پر اختلافات سامنے آئے اور منظور پشتین خاموش رہے۔
ان سے دریافت کیا کہ اس مخالفت کی وجہ کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم اپنی تنظیم سازی پر توجہ دے رہی ہے۔ اس کا اب آئین بھی ہے اور سٹرکچر بھی۔ فیصلہ اب فرد منظور نہیں بلکہ ادارہ کرے گا۔ ’ہمارے تمام فیصلے اب مرکزی کمیٹی کرے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسیر رہنما علی وزیر پی ٹی ایم کے ساتھ ہی ہیں۔
ان سے گذشتہ دنوں چند پاکستانی صحافیوں بشمول انڈپینڈنٹ اردو کے افغانستان کوریج کے سلسلے میں جانے سے متعلق ان کی سوشل میڈیا پر تنقید کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے ناراضی پر معذرت کی مگر کہا کہ صحافی شدت پسند رہنماؤں کے انٹرویوز کے لیے جاتے رہے اور کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن پی ٹی ایم کا مکمل میڈیا بائیکاٹ چل رہا ہے۔
’ہمارے اسلام آباد پریس کلب میں بیٹھنے کے باوجود کسی نے خبر نہیں چلائی۔ تین سال سے مختلف پاکستانی چینل ہمارے خلاف یک طرفہ پروپیگینڈا کیے جا رہے ہیں۔ کابل بھی تب گئے جب یہاں جشن منایا جا رہا تھا لیکن زیارت میں دھرنے کی خبر کسی نے نہیں دی۔‘
پشتون تحفظ موومنٹ کے چیلنجز میں یقیناً ہر روز اضافہ ہو رہا ہے لیکن منظور پشتین اپنے مقصد میں آج بھی واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست اور پی ٹی ایم دونوں بظاہر امن کی بات کرتے ہیں لیکن اکٹھے ہونے پر شدید اختلافات ہیں۔