کراچی کی شہری حکومت غیررسمی بستیاں پیدا کرنے کا موجب: تحقیق

کراچی کی ایک یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق تجاوزات کا مسئلہ کراچی کی شہری ترقی کا نمایاں وصف بن چکا جبکہ حکومتی طریقہ کار اس بارے میں غریب دشمن اور بے دخلی پر مبنی رہا ہے۔

کراچی میں حقیقت میں تجاوزات کا مسئلہ صرف غریب آبادکاروں سے نہیں جوڑا جاسکتا بلکہ یہ طاقت کے کھیل کا مظاہرہ ہے(اے ایف پی)

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گذشتہ سال شدید بارشوں سے پیدا ہونے والی سنگین صورت حال کے بعد حکومت نے نالوں پر اور ان کے اطراف تجاوزات ہٹانے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی روشنی میں اب تک ہزاروں مکانات منہدم کیے جا چکے ہیں۔ اور ان میں مقیم بہت سے لوگ بےگھر ہیں یا پھر انہیں رہائش میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان متاثرین کی تعداد بعض اندازوں کے مطابق لاکھوں میں ہے۔

کراچی کی حبیب یونیورسٹی کے لیکچرار اور برطانیہ کی شیوننگ سکالر شپ حاصل کرنے والے محمد ذوالقرنین الحق قاضی نے کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن اور شہری ترقی کے موضوع کے انسانی حقوق کے پہلووں پر تحقیق کی ہے۔ یہ تحقیق کراچی کی سیاسی معیشت پر ہونے والی آزادانہ تحقیق  کا حصہ ہے۔

محمد ذوالقرنین کی جانب سے ان کا تحقیقی مقالہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے بلیوٹنک سکول آف گورنمنٹ کے زیر اہتمام ہونے والی انٹرنیشنل سوشل آؤٹ کمز کانفرنس میں پیش کیا گیا، جس میں کولمبیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ پروفیسر جوزف سٹگلیٹز اور دیگر محققین  نے بھی شرکت کی۔

کانفرنس کے دوران  پینل ڈسکشن کی صدارت یورپیئن کمیشن کے گیلو پاسی نے سرانجام دیں۔

ریسرچ کے دوران اس سے متعلق کئی ماہرین، اربن پلانرز، ایڈمنسٹریٹرز اور وکلا سے چھ ماہ کے دوران طویل انٹرویو کیے گئے۔ یہ ریسرچ حبیب یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر اور سوشل ڈولپمنٹ اینڈ پالیسی کے لیکچرار محمد ذوالقرنین الحق  قاضی نے کی ہے جبکہ یونیورسٹی کے طلبہ اشعر خان اور ہبا شعیب نے بھی ریسرچ میں حصہ ڈالا ہے۔ 

اپنی تحقیق سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے محمد ذوالقرنین قاضی کا کہنا تھا کہ کراچی میں تجاوزات کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے تاریخی طور پر کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی اور شہری ترقی سے متعلق گورننس کو منصفانہ طور پر جاننا ہوگا۔

 ان کے مطابق عام طور پر تجاوزات کا مسئلہ ایسی غیر رسمی آبادیوں کے قیام سے جوڑا جاتا ہے جنہیں حرف عام میں غریب آبادی یا شہری علاقوں میں موجود کچی آبادی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں تجاوزات کا مسئلہ صرف غریب آبادکاروں سے نہیں جوڑا جاسکتا بلکہ یہ طاقت کے کھیل کا مظاہرہ ہے جسے صاحب ثروت لوگ بھی برابر کرتے آئے ہیں۔

ان کا موقف تھا کہ اس سے بھی بڑھ کر تجاوزات کا مسئلہ چاہے وہ غریب کریں یا امیر، درحقیقت کراچی کی شہری ترقی کا نمایاں وصف بن چکا ہے جبکہ ’حکومتی طریقہ کار اس بارے میں غریب دشمن اور بے دخلی پر مبنی رہا ہے۔‘

 کراچی کی وسیع تر زمین کے انتظام اور لینڈ گورننس کی صورت حال پر غور کرتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ شہر کے غریب باسیوں کے لیے بالکل ناممکن ہے کہ وہ شہر میں امیروں کے ساتھ مل کر رہ سکیں۔ ’اور یہ بات اس اصول کے بھی خلاف جاتی جس کے مطابق شہر سب کا ہوتا ہے۔‘

یہیں پر کم آمدنی والے افراد کے لیے گھروں اور اس بارے میں ریاستی مدد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ غریب آبادکار شہری علاقوں میں بہتر رہائش اختیار کرسکیں۔ ’گذشتہ 70 سال میں ریاست اس ضمن میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر غریبوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا کہ وہ خاموشی سے تجاوزات کر کے شہر پر اپنا حق جتاسکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب غریبوں نے خود نہیں کیا بلکہ حکومتی ادارے برابر اس میں مدد کرتے چلے گئے۔ جس سے ریاستی اداروں کی نااہلی کو چھپایا جاتا رہا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی تحقیق کے مطابق تاریخی طور پر دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے بعد ہی سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کے لیے گھروں کی ضروریات پوری کرنے میں حکومتی ناکامی کی وجہ سے یہ غیر رسمی آبادکاری نے جس نے بعد میں پختہ تجاوزات کی شکل اختیار کرلی، اس مسئلے کو سنگین کیا۔ ’اس کے بعد نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ کراچی میں 50 فیصد لوگ ایسی غیر رسمی آبادیوں میں رہائش پزیر ہیں۔‘

تحقیق کے مطابق یہ صورت حال کوئی آسان نہیں اور تجاوزات کے خلاف مہم چاہے کسی بھی عنوان کے تحت کی جائے، اس سے صورت حال کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ ’اس طرح کی مہمات کی وجہ سے جہاں انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوتے ہیں وہیں اس سے مزید تجاوزات قائم ہونے کے خدشات جنم لیتے ہیں۔‘ بدقسمتی سے کراچی کی شہری حکومت کا موجودہ سٹرکچر مستقل طور پر ایسی غیر رسمی بستیاں پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے جنہیں پھر تجاوزات قرار دے دیا جاتا ہے اور بالآخر یہ پھر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر منتج ہوتا ہے۔

قاضی ذوالقرنین کا کہنا ہے کہ حبیب یونیورسٹی میں پائی جانے والی علمی آزادی سے گہرائی پر مبنی مطالعہ ممکن ہوتا ہے جس سے نئے علم کی تخلیق میں مدد ملتی ہے جو علمی طور پر زرخیز ہونے کے ساتھ عملی طور پر بھی متعلقہ ہوتا ہے۔

قاضی محمد ذوالقرنین کا مزید کہنا تھا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے بلیوٹنک سکول آف گورنمنٹ کی سوشل آؤٹ کمزلیب میں تحقیق کی شمولیت یقینی طور پر ان کے لیے خوشی کا مقام تھا۔ جہاں 29 ممالک کے 117 سکالرز اور پالیسی مرتب کرنے والوں نے اعلیٰ معیار کے نتائج پیش کیے۔

کراچی میں تجاوزات کے خلاف مہم میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ کمزور طبقات کے حقوق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تجاوزات کے خلاف کی جانے والی اس مہم سے وہاں مقیم غریب ترین خاندانوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے اور ان سے ان کے گھر چھن جانے کے علاوہ انہیں اور ان کے بچوں کو معاشی، معاشرتی اور ذہنی طور پر شدید کرب کی کیفیت سے گزرنا پڑ رہا ہے جس کے سدباب کے لیے حکومت کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔

قاضی ذوالقرنین کے مطابق اس ریسرچ کے ذریعے کراچی کی شہری حکومت داری (اربن گورننس) اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے جو عام طور پر نظام کی کمزوریوں اور اس میں جان بوجھ کر پیدا کی گئی کوتاہیوں کی وجہ سے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ اور یہ تحقیق ان آوازوں کے ساتھ ایک اور آوازہوگی جس کے ذریعے شہری ترقی کے  پالیسی سازوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ کراچی سے متعلق ایسی پالیسیاں اختیارکریں جو لوگوں کو بے دخل کرنے کی بجائے مسائل کے حل کے لیے شمولیت پر مبنی ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس