321 قبل مسیح سے 184 قبل مسیح ، لگ بھگ 137 سال تک برما سے کابل اور قندھار تک موریہ سلطنت کا ڈنکا بجتا تھا۔اس سے قبل ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا ۔تاریخ میں پہلی بار ہندوستان میں کسی نے اتنی بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی تو وہ چندر گپت موریہ ہی تھا۔
چندر گپت موریہ کے بارے میں ہندوستانی مورخین کا ماننا ہے کہ ان کا تعلق شاکیہ نسل کی کھشتری ذات سے تھا جس میں بدھا بھی پیدا ہوئے تھے۔
سنہالی بدھ روایات کے مطابق چندر گپت کے والد اپنے قبیلے کے سردار تھے، ابھی چندر گپت ماں کے پیٹ میں ہی تھے کہ ان کے والد ایک لڑائی میں مارے گئے ۔ان کی ماں اپنے بھائیوں کی مدد سے پاٹلی پترا آگئیں جو اس وقت ریاست مگدھ کی راج دہانی تھی۔
یہیں چندر گپت کی پیدائش ہوئی۔
ماں نے غربت کی وجہ سے انہیں ایک سردار کے ہاں بیچ دیا۔ سردار نے انہیں مویشی چرانے پر لگا دیا۔ چونکہ چندر گپت کے خون میں سرداری تھی اس لیے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر راجہ اور پرجا کا کھیل کھیلتا جس میں چندر گپت سردار بنتا اور باقی بچے درباری بنتے۔
ایک دن یہ بچہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ وہاں سے چانکیہ کا گزر ہوا۔ چانکیہ کو اس بچے کی فہم و فراست نے اتنا متاثر کیا کہ چانکیہ نے یہ بچہ سردار سے خرید لیا اور اسے اپنے ساتھ ٹیکسلا لے آیا۔ یہاں آکر اس نے چانکیہ کو فنون حرب کی تعلیم و تربیت دی۔ اس زمانے میں سکندر اعظم ٹیکسلا آیا ہوا تھا۔
سکندر جب ٹیکسلا اور شمالی ہندوستان فتح کر کے واپس ایران چلا گیا تو چندر گپت نے چانکیہ کی مدد سے ہندوستان کی راج دہانی پاٹلی پترا پر حملے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لیے پہلے چھوٹے چھوٹے علاقوں کو فتح کیا اور جب ایک بڑی فوج بن گئی تو پاٹلی پترا پر بھی قبضہ کر لیا۔
ہندوستانی روایات کے مطابق چندر گپت موریہ کے والد کا تعلق ایودھیہ سے تھا لیکن لوک ورثہ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ڈاکٹر مہر عبد الحق کی کتاب ’تھل‘ میں چندر گپت موریہ کے بارے میں قطعی ایک مختلف کہانی بیان کی گئی ہے۔
کہانی میں چونکہ تاریخی حوالے بھی دیے گئے ہیں اس لیے اس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ اس کہانی کے مطابق ہندوستان کی عظیم موریہ سلطنت کے بانی کا تعلق پاٹلی پترا سے نہیں بلکہ میانوالی کی تحصیل پپلاں سے تھا۔
ڈاکٹر عبد الحق لکھتے ہیں کہ سکندر اعظم کے ساتھیوں کی یاداشتیں، ارتھ شاستر، چندر گپت موریہ کی وفات کے سات سو سال بعد لکھا جانے والا ’مدرا راکھشس‘ نامی ڈراما اور یا پھر ایک یونانی سفیر سیلوکس کی تحریروں میں ہمیں اس چندر گپت موریہ کے بارے میں تو معلومات ملتی ہیں جس نے ایک عظیم سلطنت قائم کر لی تھی لیکن اس کی زندگی کے ابتدائی حالات نہیں ملتے۔
انہوں نے لکھا کہ چونکہ یہ ڈراما آریاؤں نے لکھا تھا جو ہندو تھے اور چندر گپت غیر ہندو تھا اس لیے آریاؤں کی نفرت اس ڈرامے میں جھلکتی ہے۔
آریا برہمن تھے اور ان لوگوں سے شدید نفرت کرتے تھے جو ان سے ایک ہزار سال پہلے یہاں آباد ہو کر تہذیب و تمدن کی بنیادیں رکھ چکے تھے اور برہمنی مذہب کی رسومات کی پیروی نہیں کرتے تھے۔
چندر گپت موریہ وادی سندھ کے بالائی میدانوں یعنی تھل کا شہزادہ تھا۔ اس کا باپ جو سون سکیسر کا بادشاہ تھا کسی سرحدی تنازعے کے دوران مارا گیا۔ بڑی ملکہ اس اچانک سانحے سے بے یارو مددگار ہو گئی۔ پاٹلی پترا اس وقت ایک غیر ہندو اور غیر آریائی ’شک‘ قوم کا مرکز تھا جہاں نندا خاندان حکمرانی کرتا تھا۔ سکیسر کی رانی اسی راجدھانی کی طرف چل پڑی۔ راستے میں اس کا بچہ پیدا ہوا اور قریب کے چرواہے نے زچہ و بچہ کو پناہ دی۔
ایک روز چانکیہ کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے اتفاقاً بچے کو دیکھا تو اسے کچھ ایسی نشانیاں ملیں کہ اس نے چرواہے سے ’ایک ہزار کاشا پن‘ دے کر بچے کو خرید لیا۔
چانکیہ ٹیکسلا میں ایک یونیورسٹی میں استاد تھا۔ یہ شہر اس زمانے میں دنیا بھر کے علوم و فنون کا مرکز تھا جہاں بادشاہوں، وزیروں، رئیسوں اور امیروں کے بچے پڑھتے تھے۔
سکندر کا مورخ سترابو لکھتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت زرتشتی مذہب کی پیرو کار تھی اور معاشرتی رسومات پر میسو پوٹیمیا کی چھاپ تھی۔ یہیں چندر گپت کی تعلیم و تربیت ہونے لگی۔
چندر گپت ٹیکسلا میں تعلیم و تربیت سے فارغ ہوا تو چانکیہ نے اسے مگدھ کے بادشاہ سے متعارف کروایا۔ جہاں چندر گپت کی بہادری اور چابکدستی کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے اسے اپنی فوج میں جرنیل کا عہدہ دے دیا۔ اس زمانے میں چھوٹی چھوٹی راج دہانیاں تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چندر گپت نے بادشاہ کو کہا کہ تمام راجدہانیاں متحد ہو کر یونانیوں کا مقابلہ کریں اور انہیں اپنی سرزمین سے نکال باہر کریں۔ بادشاہ، چندرگپت سے خائف ہو گیا کہ یہ ایک دن اسے بھی تخت سے اتار سکتا ہے اس خدشے کے پیش نظر اسے فوج سے برخواست کر دیا گیا اور یوں چندر گپت کو پاٹلی پترا چھوڑنا پڑا۔
کہتے ہیں کہ چندر گپت کی 325 قبل مسیح میں ٹیکسلا میں سکندر اعظم سے ملاقات ہوئی جس میں سکندر نے اس بہادر نوجوان کو کسی عہدے کی پیشکش کی جسے اس نے ٹھکرا دیا کیونکہ وہ سکندر کو اپنی سرزمین پر قابض سمجھتا تھا۔
اس انکار پر سکندر نے اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا لیکن چندر گپت چونکہ مگدھ کے راجہ نندا کا سپاہی رہ چکا تھا اس لیے وہ سکندری فوج کے گھیرے کو توڑتا ہوا تیزی سے غائب ہو گیا۔
گپت کے لغوی معنی ہیں ’چھپا ہوا‘۔ جس دن سے سکندر نے ٹیکسلا اور سندھ کو چھوڑا تھا اس دن سے چندر گپت موریہ یونانیوں حکمرانوں کے لیے درد سر بن گیا۔ وہ مسلسل ان پر گوریلا حملے کرتا رہا۔
چندر گپت موریہ تھل کا رہنے ولا تھا۔ بدھ مت کی مقدس کتابوں کی روایات کی رو سے یہ عظیم شخص ’پپھلی وان‘ کے موریہ بادشاہ کی بڑی ملکہ کے ہاں پیدا ہوا۔ یہ وہی قصبہ ہے جسے آج پپلاں کہا جاتا ہے۔ چندر گپت کا باپ ہمالیہ پہاڑیوں والی ریاست کا ایک بادشاہ تھا۔ جس کی سرحدیں سکیسر سے جلال آباد تک پھیلی ہوئی تھیں۔
مشہور کتاب ’ٹریڈ روٹس ان انشینٹ انڈیا‘ کا مصنف موتی چندر لکھتا ہے کہ یہ علاقہ سکندر نے موریا بادشاہ سے چھینا تھا۔ اس کی تصدیق یوں ہوتی ہے کہ جب سلیوکس نے چندر گپت کے آگے ہتھیار ڈال دیے تو اس نے پہلا تحفہ یہی پیش کیا کہ اس کے باپ کی ریاست اسے واپس کر دی۔
چندر گپت مور خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس کے بارے میں مورخین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر اس کا تسلط تھا کیونکہ اس خاندان کا پیشہ جہاز رانی تھا۔ تھل، بہاولپور کا چولستان، راجپوتانہ کا مغربہ صحرا اور سندھ کے تھر کا علاقہ انہی کی تحویل میں تھا۔
آریا چونکہ سمندروں سے ڈرتے تھے اور دریا تک کو عبور نہیں کرتے تھے اس لیے موریہ قوم سے نفرت کرتے تھے۔ اوپر پہاڑی علاقوں میں آریاؤں کے جتھے آباد تھے جو زیریں علاقے کے لوگوں کو ملیچھ اور شودر جیسے برے ناموں سے پکارتے تھے۔
کرنل ناڈ جنہوں نے سندھ کی وسطی اور صحرائی قوموں پر تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق موروں کا تعلق تکشک نسل سے ہے۔ مور اور سومرا دونوں شاہی نسل سے ہیں جو وادی سندھ کے سمیرئیبن بادشاہ ’ارواش‘ کے براہ راست جانشین ہیں۔
موروں نے دریا سنبھال لیے اور سمراؤں نے صحراؤں اور میدانی علاقوں پر جھنڈے گاڑ دیے۔ مور کے لفظ اور اس کے مشتقات سے بھی بہت سے تاریخی حقائق سامنے آئے ہیں۔ مور جھنگی، کشمور، موری، مورو وغیرہ سب اسی نسبت سے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ملتان کا پہلا نام مور استھان تھا جو بعد میں ملتان بن گیا۔ اسی طرح دریائے سواں کے کنارے راولپنڈی میں مورگاہ نامی قدیمی بستی کا تعلق بھی اسی مور خاندان سے ہو سکتا ہے جو دریا میں کشتی رانی کرتے تھے۔
سکندر 323 قبل مسیح میں بابل پہنچ کر مر گیا۔ سکندر نے اپنی فتوحات کو مستحکم بنانے والا کوئی قابل وارث اپنے پیچھے نہیں چھوڑا تھا۔ اس کے تمام مفتوحہ علاقے اس کے فوجی جرنیلوں نے آپس میں بانٹ لیے تھے۔
چندر گپت موریہ نے ٹیکسلا سے لے کر وادی سندھ تک سکندر کے چھوڑے ہوئے گورنروں پر چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں اور بہت مختصر وقت میں ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ سلیوکس یہ قبضہ چھڑوانے کے لیے بابل سے سندھ آیا مگر305 قبل مسیح میں چندرگپت سے شکست کھا گیا۔
اس کے بعد جلد ہی چندر گپت نے اپنے اتالیق کوٹلیہ چانکیہ کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے مگدھ پر حملہ کر کے اسے بھی زیر کر لیا۔ یوں322 قبل مسیح میں اس عظیم موریہ سلطنت کی بنیاد پڑی۔
چندر گپت موریہ جین مت کا پیروکار تھا اس کے بعد اس کا بیٹا بندو سار اور پھر اس کا بیٹا اشوک حکمران بنا جسے تاریخ نے اعظم کا خطاب دیا۔
اشوک نے بدھ مت قبول کر کے اس ریاستی دھرم کی حیثیت دی۔ اس کے دور میں پاٹلی پترا کے بعد ٹیکسلا کو دوسری راجدھانی کی حیثیت ملی جس میں گندھارا ریجن کو بہت ترقی ملی۔