ایک نئی دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی پاپ سنگر برٹنی سپیئرز پر سوشی (جاپانی ڈش) اور نئے جوتوں کی عام سی خریداری کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
’کنٹرولنگ برٹنی سپیئرز‘ نامی دستاویزی فلم ’فریمنگ برٹنی سپیئرز‘کے بعد منظر عام پر آئی ہے جو اس سال کے اوائل میں ریلیز کی گئی تھی۔ دونوں فلموں میں پاپ سٹار کی جدوجہد اور گارڈین شپ سے چھٹکارے کے لیے ان کی لڑائی کو اجاگر کیا گیا ہے جو ان کے مالی معاملات، کاروبار اور ذاتی زندگی کو کنٹرول کرتی ہے۔
موسیقی سے متعلق امریکی جریدے ’رولنگ سٹون‘کے مطابق دستاویزی فلم کنٹرولنگ برٹنی سپیئرز میں جہاں دوسرے انکشافات کیے گئے ہیں، وہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گلوکارہ کو اپنی رقم کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹی موٹی عیاشیوں سے لطف اندوز ہونے سے روکا گیا۔
ماضی میں گلوکارہ کے ملبوسات کی دیکھ بھال کرنے والی لٹیشا ییٹس جنہیں ’ٹش‘ بھی کہا جاتا ہے، کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ سپیئرز کے والد روبن گرین ہل نے، جو اس کمپنی کے ملازم ہیں جو گلوکارہ کے کاروباری معاملات چلاتی ہے، سپیئرز کی سادہ سی درخواستیں بھی مسترد کر دیں۔
ییٹس نے یاد کرتے ہوئے بتایا: ’برٹنی کہا کرتیں تھیں کہ کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہم رات کے کھانے میں سوشی کھا سکیں؟ اور مجھے سنائی دیتا کہ روبن کہتے آپ نے کل سوشی کھائی ہے۔ یہ بہت مہنگی ہے۔ آپ کو دوبارہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ایک اور واقعے میں سپیئرز کو بظاہر ایک دکان کے شوکیس میں سکیچرز برانڈ کے جوتے دکھائی دیے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ان کے لیے یہ جوتے لا سکتا ہے۔ ییٹس رضاکارانہ طور پر آگے بڑھیں لیکن سپیئرز کے مینیجر نے کہا کہ ’سکیچرز کی خریداری کے لیے رقم نہیں ہے۔‘
پاپ سٹار تقریباً چھ کروڑ ڈالر کی خالص دولت کی مالک ہیں۔ ییٹس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بالآخر سپیئرز کے ملبوسات کے بجٹ کی رقم سے یہ جوتے خریدے اور چپکے سے ان کے حوالے کر دیے۔
دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت جیمی سپیئرز گارڈین کے طور پر ماہانہ 16 ہزار ڈالر (11 ہزار سات سو پاؤنڈ) وصول کر رہے تھے جو اس رقم سے دو ہزار ڈالر (15 سو پاؤنڈ) زیادہ ہے جو انہوں نے سپیئرز کے لیے مخصوص کر رکھی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برٹنی سپیئرز کے وکیل کی جانب سے پیش کردہ عدالتی دستاویزات میں مبینہ طور پر جیمی سپیئرز کے دفتری اخراجات کے لیے ماہانہ مزید دو ہزار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں گلوکارہ کی پرفارمنس اور سامان کی فروخت سے ہونے والی مجموعی آمدنی کے 1.5 فیصد کا ذکر ہے۔
دستاویزی فلم میں ایک اور الزام یہ ہے کہ جیمی سپیئرز کی جانب سے رکھی گئی سکیورٹی نے برٹنی کی ٹیلی فون پر نجی گفتگو کی نگرانی کی اور ان کی خواب گاہ میں آڈیو ریکارڈنگ کا آلہ رکھا۔
سکیورٹی کمپنی کے وکیل نے میگزین ’گڈ مارننگ امریکہ‘ کو دیئے گئے ایک بیان میں کہا: ’بلیک باکس ہمیشہ پیشہ ورانہ، اخلاقی اور قانونی حدود میں رہ کر کام کرتی ہے اور اسے سپیئرز کو کئی سال تک محفوظ رکھنے کے لیے اپنے کام پر خاص طور پر فخر ہے۔‘
جیمی سپیئرز کے وکیل نے کہا ہے کہ ان کے مؤکل نے جو کیا وہ ’برٹنی، ان کے عدالت کے مقرر کردہ اٹارنی یا عدالت کے علم اور رضامندی سے کیا۔‘
انہوں نے اخبار نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’جیمی نے تصدیق کی ہے کہ انہیں گلوکارہ کے وائس میل پیغامات یا تحریری میل تک رسائی حاصل نہیں تھی۔‘
نئی دستاویزی فلم بنانے والوں نے ’ورائٹی‘ نامی جریدے کو بتایا کہ اس سال جون میں برٹنی سپیئرز کی دھماکہ خیز عدالتی گواہی نے ان کے اندرونی حلقے کے لوگوں کو آگے آنے کی ترغیب دینے پر اثر ڈالا۔ پروڈیوسر لزڈے کے بقول: ’برٹنی سپیئرز کے عدالت میں بولنے سے واقعی بازی پلٹ گئی اور لوگ خاموش رہنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر تیار ہو گئے یا انہوں نے محسوس کیا کہ بولنا اہم ہے۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے تبصرے کے لیے برٹنی سپیئرز کے وکیل میتھیوروزن گارٹ سے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent