برطانیہ میں جاری ایندھن کے بحران میں مدد کے لیے حکومت نے فوج کو تیار رہنے کی ہدایت کردی ہے۔
ٹینکر ڈرائیوروں کی کمی کی وجہ سے گذشتہ کئی روز سے شہریوں کی افراتفری میں خریداری کے بعد ملک میں کئی پیٹرول پمپ اب خالی پڑے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانیہ کے محکمہ توانائی نے پیر کو ایک بیان میں کہا: ’محدود تعداد میں فوجی ٹینکر ڈرائیوروں کو تیار رکھا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر ایندھن کی سپلائی چین کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تعینات کیا جائے گا۔‘
ملک بھر کے پیٹرول پمپوں پر ایندھن کی تلاش میں آئے ہوئے شہریوں کی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں، جس سے کہیں پمپ خالی ہوگئے تو کہیں تلخ کلامی کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ہنگامی اختیارت کا استعمال کرتے ہوئے طبی عملے اور ضروری سروسز کے عملے کو پمپوں پر ترجیح دی جائے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس بحران کا سبب ایندھن کی فراہمی کے لیے ٹینکر ڈرائیوروں کی کمی اور شدید مانگ ہے۔
آنے والے دنوں میں اگر بحران پر قابو نہ پایا جا سکا تو فوجی ڈارئیوروں کو مخصوص ٹریننگ دے کر تعینات کر دیا جائے گا۔
وزیر تجارت کوازی کوارٹینگ نے کہا: ’اگرچہ ایندھن کی صنعت کو توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں مانگ معمول کی سطح پر آجائے گی، مگر یہ ضروری ہے کہ ہم یہ احتیاطی قدم اٹھائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو عارضی طور پر فوجی ڈرائیوروں کو تعینات کیا جائے گا، جس سے ایندھن کی فراہمی کے سلسلے میں پڑنے والے خلل کو کم کیا جا سکے گا۔
حکومت پہلے ہی بریگزٹ کے بعد اپنائی گئی سخت امیگریشن پالیسی میں نرمی لائی ہے اور ٹرک ڈائیوروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے غیر ملکی ٹرک ڈائیوروں کو قلیل مدت ویزا پر چھوٹ دے دی گئی ہے۔
ہفتے کو حکومت کا کہنا تھا کہ وہ اگلے ماہ سے 24 دسمبر تک 10 ہزار 500 عارضی ورک ویزوں کا اجرا کرے گی تاکہ ڈرائیوروں کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب ایندھن فراہم کرنے والی کمپنیوں جیسے شیل، بی پی اور ایسو نے کہا ہے کہ ’برطانیہ کی ریفائنریوں میں بہت ایندھن ہے‘ اور ان کو توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں مانگ معمول پر آ جائے گی، جس سے نظام پر پڑنے والے دباؤ میں کمی آئے گی۔
ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا کہ ’ہم سب پر زور دیں گے کہ وہ ایندھن ایسے ہی خریدیں جسے عام طور پر خریدتے ہیں۔‘
تاہم پیٹرول پمپوں کے باہر رات گئے بھی لمبی قطاریں اور ناخوش ڈرائیور نظر آئے۔ اس بحران کے معیشت پر اثرات کے بھی خدشات ہیں۔
لندن کے ایک گیراج میں لائن میں کھڑے ڈرائیور ڈیوڈ ہارٹ ویک اینڈ پر پیٹرول کی تلاش میں رہے۔ انہوں نے بتایا: ’لوگوں کو ضرورت ہے۔ اگر اب مجھے پٹرول نہیں ملتا تو میں کام پر نہیں جا سکوں گا۔‘
برطانیہ کی سب سے بڑے سرکاری یونین یونیسن نے کہا کہ اہم اہلکاروں جیسے ڈاکٹروں، نرسوں، ٹیچروں اور پولیس کے عملے کو قطاروں میں انتظار کرنے کے بجائے ترجیحی بنیادوں پر پیٹرول دیا جانا چاہیے۔
جنرل سیکرتری کرسٹینا مک انیا کے کہا کہ حکومت کو ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اہم سروسز کے عملے کے لیے پیٹرول پمپ مخصوص کر دینے چاہییں۔
طبی ادارے کہہ چکے ہیں کہ ان کے عملے کو کام پر آنے میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ سکول بھی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر استاد سکول ہی نہیں پہنچ سکیں گے تو تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رہ پائے گا۔
پیٹرول ریٹیلیز ایسوسی ایشن نے کہا کہ اتوار کو ملک کے آٹھ ہزار میں سے نصف پیٹرول پمپس خالی ہو چکے ہیں، جس کی وجہ انہوں لوگوں کی جانب سے ’گھبراہٹ میں خریداری‘ قرار دی۔
ناقدین نے حکومت کے ٹرک ڈرائیورں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہ اٹھانے کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ جنوری میں برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے بعد سے کئی غیر ملکی ٹرک ڈرائیور بھی ملک چھوڑ گئے تھے۔