پنڈورا پیپرز کی اشاعت سے 48 گھنٹے قبل ایک پاکستانی نیوز چینل اے آر وائی نے رپورٹ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے لاہور میں واقع گھر سے ملتے جلتے پتے پر دو آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔
آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ میں ان کمپنیوں کا وزیر اعظم سے کوئی تعلق نہ ہونے کا بھی کہا گیا نیز ان معلومات کو آف شور کمپنیوں کے ایک ڈیٹا بیس سے منسوب کیا گیا۔
اے آر وائی نیوز آئی سی آئی جے کا پارٹنر نہیں ہے اور نہ آئی سی آئی جے کے ڈیٹا تک رسائی رکھتا ہے۔
پنڈورا پیپرز کے مطابق اس رپورٹ کی اشاعت سے قبل آئی سی آئی جے (تحقیقاتی ادارے) نے وزیراعظم عمران خان سے ان کمپنیوں کے بارے میں سوال کیا تھا۔ جس پر عمران خان کے ایک ترجمان نے ادارے کو بتایا کہ ’وزیر اعظم کا ان کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
وزیراعظم کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ہی علاقے میں موجود ان دونوں گھروں کا پتا ملتا جلتا ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے ایک نقشہ بھی پیش کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان نے آئی آر وائی نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی وزیر اعظم کے ان کمپنیوں سے کسی تعلق کی تردید کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کمپنیوں کے مالک اپنی زندگی میں کبھی عمران خان سے نہیں ملے ہوں گے لیکن ہو سکتا کہ وہ دونوں کبھی کسی خاندانی تقریب میں موجود رہے ہوں۔‘
ماہرین کے مطابق آف شور کمپنی اگر قانونی طریقے سے بنائی گئی ہے اور اس کے بارے میں حقائق چھپائے نہیں گئے اور اسے ڈکلئیر کیا گیا ہے، تو آف شور کمپنی رکھنا غیر قانونی نہیں ہے۔
پنڈورا پیپرز کی تحقیقات میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے سویلین اور فوجی عہدیداروں کے نام بھی سامنے آئے ہیں جو اپنی بے پناہ دولت چھپاتے رہے ہیں۔ ان افراد کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جہاں غربت اور ٹیکس ادا نہ کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔