ماسکومذاکرات:’روس طالبان حکومت تسلیم کرنےپرغورنہیں کررہا‘

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ افغانستان پر مذاکرات کی میزبانی کے باوجود ’طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کیے جانے پر کوئی بات نہیں کی جا رہی اور ہم عوامی طور پر اس کا اعلان کر چکے ہیں۔‘

18 مارچ 2021 کو روسی  دارالحکومت  ماسکو میں افغانستان تنازع کے پرامن حل کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں  شریک حکام (فائل فوٹو: اے ایف پی)

روس کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق ایک اہم اجلاس آج (20 اکتوبر کو) ماسکو میں منعقد ہو رہا ہے لیکن روسی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور نہیں کر رہے۔

 اس اجلاس میں امریکہ تو شرکت نہیں کر رہا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت شریک ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستان، چین اور افغانستان کے اعلیٰ عہدیدار بھی اس خصوصی اجلاس کا حصہ ہوں گے۔

امریکہ نے ماسکو مذاکرات میں ’لاجسٹک مسائل‘ کی وجہ سے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ اس فورم کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔

ماسکو کانفرنس میں طالبان کا وفد نگران نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی کی سربراہی میں شریک ہوگا۔ وفد میں طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی شامل ہیں۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ جلد از جلد دنیا کے ساتھ قانونی تعلقات قائم کرنے اور اپنی حکومت کو تسلیم کروانے کے خواہش مند ہیں اور اجلاس کے ایجنڈے میں سیاسی اور معاشی امور پر گفتگو ہوگی۔

تاہم روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ افغانستان پر مذاکرات کی میزبانی کے باوجود ماسکو طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کے کسی امکان پر غور نہیں کر رہا۔

منگل کو ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں لاوروف نے کہا: ’طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کیے جانے پر کوئی بات نہیں کی جا رہی اور ہم عوامی طور پر اس کا اعلان کر چکے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’خطے میں اثر و رسوخ رکھنے والے دیگر ممالک کی طرح روس نے بھی طالبان سے رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ماسکو کو امید ہے کہ طالبان جامع اور وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے اپنے وعدوں کو پورا کریں گے جس میں نہ صرف نسلی بلکہ مختلف سیاسی نقطہ نظر کے حامل شخصیات کو بھی شامل کیا جائے۔‘

اس سے قبل سرگئی لاروف نے جمعے کو کہا تھا کہ امریکہ اور نیٹو اتحاد کے افغانستان سے انخلا نے سیاسی اور عسکری صورت حال زیادہ مبہم بنا دی ہے، جس کے نتیجے میں خطے میں دہشت گردی کے سنگین خطرے میں اضافہ ہوا ہے۔

لاروف نے یہ بات ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں سینیئر ذمے داران کے ساتھ ایک کانفرنس میں کہی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ماسکو افغانستان میں متحارب فریقوں کے درمیان امن بات چیت کے آغاز میں مدد دینے کا خواہاں ہے۔

اگرچہ امریکہ اس مرتبہ روس کی میزبانی سے فائدہ نہیں اٹھائے گا لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق غیرمتوقع طور پر روس نے امریکہ کو افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے اپنے بیرونی فوجی اڈے استعمال کرنے کی پیش کش کی ہے۔

کریملن نے واشنگٹن کو پیش کش کی ہے کہ وہ افغانستان سے انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنے کے لیے وسط ایشیا کی ریاستوں میں واقعے روس کے فوجی اڈے استعمال کر سکتا ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق روسی صدر ولادی میر پوتن نے یہ تجویز گذشتہ ماہ جینیوا میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران دی اور افغانستان کے حوالے سے معلومات جمع کرنے کے لیے کرغزستان اور تاجکستان میں فوجی اڈے استعمال کرنے کی پیش کش کی۔

دوسری جانب اگرچہ بھارت نے 31 اگست کو دوحہ میں طالبان کے ساتھ پہلا باضابطہ رابطہ کیا تھا، تاہم ماسکو اجلاس نئی دہلی اور طالبان حکومت کے درمیان عبوری کابینہ کے اعلان کے بعد پہلا باضابطہ رابطہ ہوگا۔

روس افغان مسائل کے حل کے لیے 2017 سے مذاکرات کا ’ماسکو فارمیٹ‘ منعقد کر رہا ہے۔ اس وقت سے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔

اس اجلاس سے طالبان کو ایک بڑی امید ان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے کی جانب کوئی پیش رفت ہونا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس کانفرنس میں شریک ہر ملک طالبان سے روابط بڑھانے میں پہلی کوشش کرسکتا ہے۔

کابل نے گدشتہ روز اس خبر کی تردید کی تھی کہ کانفرنس کے لیے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔

ماسکو سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں ہونے جارہا ہے، جب اپنی حکومت کو باضابطہ بنانے کے لیے طالبان حکام کے دوروں کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ طالبان کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے مختلف ممالک کے عہدیداروں سے ملاقات کے لیے دوحہ کا سفر کرنے کے بعد، طالبان کے وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی کی قیادت میں ایک وفد اب ترک حکومت کے حکام سے مذاکرات کے لیے انقرہ گیا ہے۔

ایران میں بھی اجلاس

ماسکو کے بعد افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا ایک اجلاس تہران میں آئندہ ہفتے 27 اکتوبر کو منعقد ہوگا۔ اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبد اللہیان نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری موسم سرما کی آمد کے پیشِ نظر افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کا عمل تیز کرے گی۔

شاہ محمود قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کو امن ،استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے قریبی روابط ناگزیر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران نے اس اجلاس کے لیے روس، چین، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کو مدعو کیا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ اجلاس ان مذاکرات کو آگے لے کر چلے گا جو عملاً (ہمسایہ مملک کے) پہلے دور میں ہوئے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ چھ ممالک کی توجہ اس بات پر مرکوز رہے گی کہ وہ کس طرح افغانستان میں ایک جامع حکومت کی تشکیل اور امن و سلامتی کے حوالے سے مدد کر سکتے ہیں۔

اتوار کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے حسن کاظمی قمی کو افغانستان کے لیے نیا خصوصی نمائندہ مقرر کیا، جو اس سے قبل عراق میں ایران کے سفیر اور قدس فورس کے اہلکار رہ چکے ہیں۔

بھارت

ادھر افغانستان پر مختلف ممالک کے مشاورتی اجلاسوں کے اس دور میں بھارت بھی آئندہ ماہ علاقائی ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کا ایک اجلاس منعقد کرنا چاہ رہا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے نئی دہلی سے دعوت ملنے کی تصدیق کی لیکن کہا کہ ’ابھی شرکت کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول افغانستان کے تازہ ترین حالات پر اجلاس کی صدارت کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ چین، روس، ایران، تاجکستان اور ازبکستان کو بھی اس کانفرنس کے لیے مدعو کیا گیا ہے ، جس کے دوران سلامتی کی صورت حال اور طالبان کو انسانی حقوق کی پاسداری کی ضرورت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے پر غور کیا جائے گا۔

طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی شرائط

دنیا کے متعدد ممالک کا خیال ہے کہ جب تک طالبان بین الاقوامی برادری کی شرائط کو قبول نہیں کرتے، تب تک یہ ممکن نہیں کہ طالبان کی حکومت تسلیم کی جائے۔

یورپی یونین نے، جس نے حال ہی میں افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی انسانی امداد کی منظوری دی ہے، کہا ہے کہ صرف اس صورت میں جب طالبان ایک جامع حکومت پر راضی ہوں، انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کا احترام کریں، خواتین کو کام پر واپس لائیں، لڑکیوں کی سکولوں میں دوبارہ تعلیم کا آغاز کریں اور یونیورسٹیاں افغانستان میں نسلی، مذہبی اور علاقائی گروہوں کے خلاف تشدد کو روکنے اور دہشت گرد گروہوں سے لڑنے مدد کریں گے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی افغانستان میں ایک جامع حکومت قائم کریں گے جس میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔ طالبان قیادت کے متعدد ارکان کا کہنا ہے کہ خواتین پہلے ہی کچھ شعبوں میں سرگرم ہیں اور دوسرے شعبوں میں بھی خواتین کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا۔

طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لڑکیوں کے سکول افغانستان کے کچھ حصوں میں فعال ہیں اور جلد ہی دوسرے علاقوں میں بھی فعال ہو جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا