خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان نے چوبیس اکتوبر کو یہ دعویٰ کیا کہ ان کے صوبے سے پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔
پچھلے پانچ سال کا ڈیٹا دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں پولیو کیسز کی تعداد ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ رہی ہے۔ 2020 میں یہ تعداد 22، 2019 میں 93، 2018 میں آٹھ، 2017 میں ایک، اور 2016 میں 10 تھی۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کے استفسار پر صوبائی ترجمان کامران بنگش نے کہا کہ وہ اپنے دعوے پر قائم ہیں اور یہ کہ پچھلے پندرہ ماہ سے خیبر پختونخوا میں پولیو کا ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا ہے۔
’حالیہ ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تشخیص نہ ہونا اور ہائی رسک علاقوں سے بھی پولیو کا کوئی کیس سامنے نہ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ خیبر پختونخوا سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ البتہ مستقل بنیاد پر اس کا راستہ روکنے کی کوشش جاری رہے گی۔‘
تاہم دوسری جانب پاکستان میں پولیو پروگرام کے حکام کا کہنا ہے کہ کیسز رپورٹ نہ ہونا یا ماحولیاتی نمونوں کا نتیجہ منفی آنا، ان دونوں عوامل کو خیبر پختونخوا سے پولیو وائرس کا خاتمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خیبر پختونخوا پولیو پروگرام کے ایمرجنسی آپریشنز سنٹر (ای او سی) کے کوآرڈینیٹر عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسلسل تین سال تک کسی صوبے یا علاقے کےماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تشخیص منفی آنے کے بعد ہی اسے پولیو وائرس سے پاک قرار دیا جاتا ہے۔
’پروٹوکول یہی ہے کہ مسلسل تین سال نمونے لیے جائیں۔ خیبر پختونخوا کے ماحولیاتی نمونے صرف پچھلے پانچ ماہ سے منفی آرہے ہیں، لہذا ابھی ہمارا ایک سال مکمل نہیں ہوا۔‘
عبدالباسط نے بتایا کہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو بھی پولیو کے قطرے پلائے جارہے ہیں جس میں تمام عمر کے افراد شامل ہیں۔
پولیو وائرس کے موضوع پر عرصہ دراز سے کام کرنے والے پشاور کے صحافی شاہین شاہ آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماحولیاتی نمونے ہر مہینے لیے جاتے ہیں جنہیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) بھیج دیاجاتا ہے۔
’پچھلے چند ماہ جب انوائرمینٹل سیمپلز منفی آنا شروع ہوئے تو حقیقی نتائج جانچنے کے لیے سیمپلز کی تعداد جو پہلے 14 ہوتی تھی، کو بڑھا کر 17 کر دیا گیا۔‘
شاہین آفریدی نے بتایا کہ پولیو ویکسین تمام عمر کے افراد پر یکساں اثرانداز ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سرحد پر بیٹھے پولیو حکام یہ امر یقینی بنانے میں کوشاں ہیں کہ افغانستان سے آنے والے تمام عمر کے افراد کو پولیو کے قطرے پلا دیے جائیں۔
ماحولیاتی نمونے کیا ہوتے ہیں، اور ان سے پولیو کا ادراک کیسے ہوتا ہے؟
موحولیاتی نمونے جنہیں انگریزی میں انوائرمینٹل سیمپلز کہا جاتا ہے، پولیو وائرس کی موجودگی معلوم کرنے کا ایک ایساطریقہ کار ہیں جن میں انسانی فضلے کے نمونے کسی علاقے کے گٹر سے لے کر اس میں وائرس کی موجودگی جانچی جاتی ہے کیوں کہ متاثرہ افراد کےفضلے میں وائرس کئی ہفتوں تک موجود رہتا ہے۔
پولیو وائرس کے حوالے سے زیادہ تر چیلنجز دیہی علاقوں میں درپیش ہوتے ہیں جہاں سیوریج نمونے لینے کے لیے گٹر موجود نہیں ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم پولیو پروگرام حکام کا کہنا ہے کہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے نالوں سے نمونے لیے جاتے ہیں۔
کئی والدین پولیو مہم کے دوران اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکاری ہوتے ہیں جب کہ دوسری جانب پولیو ورکرز پر طالبان کے حملے ایسے چیلنج ہیں جو اس مہم کو ناکام بنانے کے درپے ہیں۔ ایسے حالات میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ دو سالوں میں کیا واقعی پاکستان پولیو وائرس سے پاک قرار دیا جاسکے گا کہ نہیں۔
پاکستان کو پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث وقتا فوقتاً مختلف ممالک کی جانب سے سفری پابندیوں اور شرائط کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2014 میں عالمی ادارہ صحت نے بھی ایسا ہی ایک فیصلہ ظاہر کیا تھا جس میں پاکستان سمیت شام اور کیمرون پر سفری پابندیاں عائد کی گئی تھیں نیز 2014 میں بین الاقوامی سطح پر دس میں سے تین ممالک پولیو وائرس پھیلانے کا سبب بتائے گئے تھے جن میں ایک پاکستان بھی تھا۔ اسی سال بھارت نے بھی پاکستان سے انڈیا داخل ہونے والے مسافروں کے لیے پولیو ویکسین قطروں کی شرط رکھی تھی۔