پچھلے 10 دنوں سے سڑکوں پر موجود کالعدم تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان اتوار کو مذاکرات کامیاب ہو گئے۔
آج مفتی منیب الرحمن کا پریس کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور تحریک لبیک کے درمیان اتفاق رائے سے معاہدہ طے پا چکا ہے جس کے نتائج آئندہ ہفتے میں سامنے آ جائیں گے نیز تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آئیں گی۔
ان کا کہنا تھا تحریک لبیک دھرنے سے جو صورت حال پیدا ہوئی اس نمٹنے کے لیے تین افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس میں شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی محمد خان شامل تھے تحریک لبیک پاکستان شوریٰ کی نمائندگی کرنے والے تین افراد شامل تھے نیز سعد رضوی کی بھی تائید و حمایت شامل تھی۔
مفتی منیب کا کہنا تھا کہ یہ مذکرات تناؤ کے ماحول میں نہیں ہوئے۔ معاہدہ اس لیے کیے گیا کہ جذباتیت پر معقولیت غالب آئی اور فریقین نے تدبر کا مظاہرہ کیا۔
مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ میڈیا کو مثبت انداز میں اسے پیش کرنا چاہیے اور ملک میں امن و امان اور عافیت کی جدوجہد میں میڈیا کو اپنا حصہ شامل کرنا چاہیے۔
حکومتی کمیٹی کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بریفنگ میں کہا کہ جمعے کے روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ طاقت کے بجائے دانش و ہوش مندی سے معاملے کو حل کرنا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے پریس بریفنگ میں معاہدے سے متعلق صحافیوں کے سوال لینے سے انکار کر دیا۔
کالعدم تنظیم کی شوریٰ کے دو ارکان عنایت الحق شاہ اور مفتی عمیر جبکہ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے بشیر محمود فاروقی بھی پریس کانفرنس میں شریک تھے۔
تحریک لبیک پاکستان کے دس روز سے جاری دھرنے کی وجہ سے ملکی حالات کشیدگی کا شکار تھے۔ حکومتی وزرا نے بارہا مذاکرات کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی جس کے بعد علما کو معاملے میں شامل کیا گیا۔ علما نے لاہور میں ملاقات کی جس کے بعد ذرائع کے مطابق سعد رضوی کو خفیہ طور پر لاہور سے اسلام آباد لایا گیا تاکہ مذاکرات کا سلسلہ تیز کیا جا سکے۔
جمعرات کے روز وزارت داخلہ کی جانب سے کہا گیا کہ مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور ریاست کی رِٹ قائم کی جائے گی۔ لیکن اسی سلسلے میں جمعے کے روز قومی سلامتی کمیٹی کا جب اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی معید یوسف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ، تینوں مسلح افواج کےسربراہان، ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسز انٹیلی جنس ، انٹیلی جنس بیورو، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، سینئر سول و عسکری حکام بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ تو اجلاس میں مذاکرات کا راستہ بند نہ کرنے اور پرامن طریقے سے معاملے کو حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے قومی سلامتی کے اجلاس میں یہ بھی کہا کہ کسی گروپ یا عناصر کو امن عامہ کی صورتحال بگاڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کسی گروپ یا عناصر کو حکومت پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیراعظم کی جانب سے یہ واضح کیا گیا کہ فرانس سے تعلقات ختم نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی یہ ملکی مفاد میں ہے۔
واضح رہے کہ تحریک لبیک کا قافلہ اس وقت وزیرآباد کے قریب موجود نتائج اور اگلے اعلان کا انتظار کر رہا ہے۔ مظاہرین نے گزشتہ کئی روز سے جی ٹی روڈ پر دھرنا دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ سروس معطل ہے۔ شیخوپورہ سے لے کر جہلم تک عام عوام کے معاملات زندگی بُری طرح متاثر ہیں۔ اس کے علاوہ راولپنڈی میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والی مرکزی شاہراہیں سیل کردی گئی ہیں۔ صدر سے فیض آباد میٹرو سروس معطل ہے۔
مذاکرات میں پیش رفت کی تفصیل
وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے ہفتے کے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ مظاہرین سے مذاکرات کے لیے علما و مشائخ کی 12 رکنی کمیٹی بنا دی گئی۔ بارہ رکنی کمیٹی حکومت اور تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ رابطے میں رہ کر معاملے کا حل نکالے گی۔ کمیٹی میں صاحبزاہ حامد رضا، حامد سعید کاظمی، پیر خالد سلطان شامل ہیں اس کے علاوہ کمیٹی میں پیر پرچونڈی شریف اور پیر آف مانکی شریف، ڈاکٹر ابوالخیر زبیر، صاحبزادہ مخدوم عباس شاہ ہمدانی، ثروت اعجاز قادری اور مفتی منیب الرحمن بھی شامل ہیں۔
مفتی منیب الرحمن نے اس سارے معاملے پر جمعرات کے روز نجی ٹی وی کے پروگرام میں کُھل کر بات کی اور حکومتی رویے پر بھی تنقید کی انہوں نے کہا کہ معاملے کو حل کرنے کے بجائے بگاڑا جا رہا ہے۔ جمعے کے روز ذرائع کے مطابق مفتی منیب الرحمن کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ہفتے کے روز مذاکرات کے لیے بننے والی بارہ رکنی کمیٹی میں اُن کا نام بھی شامل ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہفتے کے روز وزیراعظم عمران خان سے بنی گالہ میں 31 سے زائد علما نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری بھی موجود تھے۔ نورالحق قادری کے مطابق وزیراعظم نے ملاقات میں کہا کہ حکومت ریاست کی رٹ کو قائم کرے گی لیکن اگر مذاکرات سے پرامن حل نکل آتا ہے تو حکومت اس کا خیر مقدم کرے گی۔ حکومت کبھی بھی سنجیدہ مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
نور الحق قادری نے سینچر کی رات نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان کا مرکزی مطالبہ حافظ سعد رضوی کی رہائی کا ہے اور اس کے تحریک کے دیگر افراد کو بھی رہا کیا جائے۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے اور قانونی طور پر سعد رضوی کی رہائی کا رستہ نکل آتا ہے تو حکومت اس میں رکاوٹ نہیں بنے گی لیکن معاملہ چونکہ عدالت میں ہے تو عدالت نے ہی فیصلہ کرنا ہے۔
واضح رہے کہ کالعدم ٹی ایل پی نے 12 ربیع الاول کے روز سے اپنے احتجاج کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ ابتدائی طور پر تنظیم نے ملتان اور لاہور میں دھرنے دیے تھے جس کے بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دوران چھ بار حکومتی ٹیم کی جانب سے مذاکرات کے ادوار چلے لیکن وہ مذاکرات ناکام ہوئے۔