بھارت پاکستان دونوں ممالک میں یہ فیشن عام ہے کہ اپنے ہی ملک کی مخالف جماعتوں کو دوسرے ملک کی فنڈنگ لینے اور اس ملک کا آلۂ کار بننے کا الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جب کسی گروہ پر دباؤ ڈالنا مقصود ہو تو اسے بھارت نواز کہہ کر غدار وطن ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس طرح بھارت میں مخالف جماعت یا پریشر گروپ یا اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والے شہریوں کو پاکستان نواز کا لیبل لگا کر تحریک کو کچلا جاتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں’تحریک لبیک پاکستان‘ نامی ایک سیاسی جماعت کی طرف سے احتجاج اختتام پذیر ہوا ہے۔ احتجاج کے دوران مسئلہ اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب حکومتی وزرا نے اس جماعت پر بھارت سے مدد لینے کا الزام لگایا۔
حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ ٹی ایل پی بھارت سے فنڈنگ لیتی ہے اور پچھلے دھرنے میں اس کے حق میں بھارت سے ٹویٹس بھی کیے گئے۔
یہ میں نے خود بھی دیکھا ہے کہ پاکستان کے اندر کوئی بھی مذہبی تحریک چل رہی ہو تو اس مکتبہ فکر کے بھارتی شہری بھی اس کو اخلاقی مدد دے رہے ہوتے ہیں۔
بھلے ہی دیوبندی، بریلوی اور احمدی تحریکوں کا گڑھ بھارت ہی ہے لیکن اس وقت برصغیر میں ہر مکتب فکر کا مرکز پاکستان ہے۔
پاکستان کے علما کو بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش اور افغانستان میں بھی فالو کیا جاتا ہے۔
ٹی ایل پی پاکستان میں سامنے آنے والی نئی مذہبی جماعت ہے۔ جب بھی یہ جماعت سیاسی یا مذہبی طور پر میدان میں اترتی ہے تو اس کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے حضرات بھارت میں بھی اسے حمایت فراہم کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کے حق میں پوسٹس کی جاتی ہیں اور مرحوم مولانا خادم رضوی کی تقریروں کے کلپ چلائے جاتے ہیں۔
لیکن یہ لوگ کسی ایجنسی یا سازش کا حصہ نہیں ہوتے۔ یہ صرف مسلکی وابستگی کی بنیاد پر مدد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے بھارت اور پاکستان دونوں ممالک میں بریلوی عوام اکثریت میں ہیں تو فواد چوہدری صاحب نے ٹوئٹس کی جو تعداد بتائی وہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
بھارت میں بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اب مولانا خادم رضوی مرحوم کی طرز پر کالی پگڑیاں بھی پہنتے ہیں۔
پاکستان کے علما اور نعت خوان حضرات بھی کو بھارت میں بہت سنا جاتا ہے۔ ان میں مولانا طارق جمیل اور ثاقب رضا مصطفائی سر فہرست ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طاہر القادری جب دھرنا دیتے تھے تو بھارت میں ان کے فالوورز جو کہ ’منہاجی‘ کہلاتے ہیں انہیں خوب سراہتے تھے۔
اسی طرح پاکستان کے اہل تشیع علما کو بھی ان کے بھارتی فالوورز بہت زیادہ سنتے ہیں۔ مولانا ضمیر اختر نقوی المعروف ’لڈن جعفری‘ پر جو میمز بنتی تھیں ان کو بھارت میں بھی انجوائے کیا جاتا تھا۔
ابھی پچھلے دونوں مفتی طارق مسعود اور انجیینئر محمد علی مرزا کے درمیان جو نوک جھونک ہوئی اس کو لے کر بھی پاکستان کے ساتھ بھارت میں بھی لوگ سوشل میڈیا پر دو دھڑوں میں منقسم ہو گئے۔ ایک گروہ طارق جبکہ دوسرا مرزا کا حمایتی تھا۔ کیا ان کو بھی کہا جائے کہ انہیں بھارت کا تعاون حاصل ہے؟
ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ بھارت میں بھی ہوتا ہے کہ مخالف گروہ پر پاکستانی مدد کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔
سال 2012 میں جب دہلی کے موجودہ وزیر اعلیٰ کی تحریک عروج پر تھی تو انہیں ان الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ یہ جو سب ہو رہا ہے اس کے لیے انہیں پاکستانی حمایت حاصل ہے۔
2019 کے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے انڈین نیشنل کانگریس پر بھی ایسے الزامات لگائے گئے تھے۔
یہ الزامات خود وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے لگائے تھے۔ مودی کا ایک الیکشن ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کانگریس کے رہنما منی شنکر ایر کے گھر پاکستانی سفارت کاروں کی ایک خفیہ میٹنگ کی گئی تھی جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہروانے کا لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا۔
مرکز کے شہری ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہے شہریوں کو بھی پاکستانی حمایت یافتہ قرار دیا گیا تھا۔
ایک سال سے کسان مرکز کے نئے تین زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن یہ کسان بھی ایسے الزامات سے نہیں بچ پائے۔
خیر جموں و کشمیر کی تو ہر بات ہی پاکستان سے جوڑ دی جاتی ہے، یہاں تک کہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ’گپکار ڈیکلریشن فار پیپلز آلائنس‘ کو بھی بے جی پی کی طرف سے پاکستان نواز قرار دے کر مشکوک بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی تھی۔