سابق پاکستانی سفارت کار کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں عدالت کے سامنے ملزمان کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے پولیس اہلکاروں کے بیانات میں کئی تضادات اور کمی کی نشاندہی کی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا محمد ربانی کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران دو پولیس اہلکاروں نے استغاثہ کے گواہان کی حیثیت سے بیانات ریکارڈ کروائے۔
عدالت کے سامنے پیش ہونے والے استغاثہ کے گواہوں میں نیشنل فورینزک سائنس ایجنسی کے کرائم سین آفیسر محمد عمران اور اسلام آباد پولیس کے اہلکار سکندر حیات شامل تھے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور دوسرے گرفتار ملزمان کو بھی لایا گیا جب کہ ضمانت پر رہا ملزمان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
حسب سابق مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے جنہیں کمرہ عدالت میں نسبتاً پیچھے کھڑا کیا گیا تھا جج کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی جس پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی نے توجہ نہیں دی۔
تاہم مرکزی ملزم خاموش نہیں ہوئے اور بار بار جج کو مخاطب کر کے ان کے قریب آکر کچھ کہنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔
مرکزی ملزم ظاہر جعفر خلاف روایت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا محمد ربانی کو ’جج عطا‘ یا صرف ’جج‘ کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔
مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے انگریزی زبان میں کئی مرتبہ کہا: ’جج عطا، کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟‘
جج عطا محمد ربانی نے ظاہر جعفر کی آوازوں پر توجہ نہیں دی اور کچھ دیر بعد پولیس اہلکاروں کو ملزم کو کمرہ عدالت سے باہر لے جانے کا اشارہ کیا جس پر ظاہر جعفر کو بظاہر زبردستی باہر لے جایا گیا۔
بدھ کی سماعت میں نور مقدم کے خاندان کی دو خواتین (شاخت نہیں بتائی جا رہی) بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں، جنہیں گواہوں پر جرح کے دوران مقتولہ کا ذکر آنے پر آبدیدہ ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔
بدھ کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل بشارت اللہ خان بھی عدالت میں پیش ہوئے اور استغاثہ کے گواہان پر جرح کی۔
استغاثہ کے دونوں گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد تھیراپی ورکس کے سربراہ کے وکیل محمد اکرام قریشی نے جرح کے دوران ان کے بیانات میں تضادات کو واضح کیا۔
محمد اکرام قریشی نے ایک مقام پر عدالت کو بتایا کہ گواہوں کے بیانات میں تضادات سے واضح ہوتا ہے کہ تفتیشی افسر نے بعض پولیس اہلکاروں کے بیانات کا ریکارڈ ضائع کیا، اور اس کی جگہ اپنی مرضی کے لکھے ہوئے بیانات رکھ دیے۔
مقدمے کی فائل میں موجود اے ایس آئی سکندر حیات کے دو بیانات مختلف ہینڈ رائٹنگ میں لکھے گئے تھے جبکہ ان میں بعض حقائق بھی مختلف تھے۔
محمد اکرام قریشی نے جب ان تضادات کی نشاندہی کی تو مدعی کے وکلا نے اس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، جبکہ سکندر حیات نے کہا کہ ان کا ایک بیان تفتیشی افسر نے خود اور دوسرا اپنے کسی ماتحت سے لکھوایا ہے اور اسی وجہ سے دونوں بیانات مختلف ہینڈ رائٹنگز میں ہیں۔
استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے گواہان کے بیانات میں تضاد دیکھے جا سکتے تھے جو جائے وقوعہ پر شہادتیں اکٹھی کرنے، مختلف اہلکاروں کے وہاں پہنچنے، اور گواہان کے بیانات میں حقائق کی تردید پر مبنی تھے۔
عدالت کے سامنے پیش ہونے والے استغاثہ کے گواہان نے عدالت کو بتایا کہ نور مقدم کی لاش کمرے میں پڑی تھی، اور اس کا سر تن سے جدا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمرے میں سے ایک نائن ایم ایم پستول، ایک آہنی مکہ، پستول کا میگزین اور ایک ڈبے میں پچاس کارتوس برآمد کر کے ان کے الگ الگ پارسل بنائے گئے۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی سفید رنگ کی قمیض کا بھی پارسل بنایا گیا، جب کہ فارنزک آفیسر نے کمرے میں موجود خون کے نمونے بھی حاصل کرنے کے علاوہ ایک ٹوکری میں موجود سگریٹ کے چار ٹکڑے اور مقتولہ کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں میں پھنسا مواد بھی حاصل کیا۔
ایک گواہ نے بتایا کہ بعد میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی نشاندہی پر جائے وقوعہ سے ایک موبائل فون بھی برآمد کیا گیا جس کی سکرین ٹوٹی ہوئی تھی۔
محمد اکرام قریشی کے دریافت کرنے پر ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ خون کے نمونے ایک ہی جگہ سے حاصل کیے گئے تھے، جب کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ تھیراپی ورکس کا ایک ورکر بھی اسی کمرے میں زخمی ہوا تھا۔
جائے وقوعہ سے حاصل ہونے والے اور دیگر مجموعی طور پر 16 شواہد عدالت کے حوالے کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا محمد ربانی اس وقت ناراض ہوئے جب پویس اہلکاروں نے غلط شواہد کے طور پر اکٹھی کی گئی کچھ غلط اشیا عدالت میں پیش کیں، جب کہ ان چیزوں کے پیش کیے جانے میں دیر بھی ہوئی۔
اس پر استغاثہ کے ایک وکیل نے عدالت کو وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا: ’جناب یہ ساری چیزیں ایک بڑے بکس میں پڑی ہیں اور انہیں ڈھونڈ کر نکالنا پڑتا ہے۔‘
ملزمان کے وکلا نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں جائے وقوعہ سے حاصل کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کی کاپی بھی فراہم کی جائے، جس پر جج عطا محمد ربانی نے کہا کہ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے اور ویڈیو فراہم کرنا ہو گی۔
تاہم استغاثہ کے وکیل شاہ خاور نے اس موقع پر کہا کہ فوٹیج میں ہیجان خیزی بہت زیادہ ہے، خیال رکھنا ہو گا کہ کہیں یہ وائرل ہی نہ ہو جائے۔
اس پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے کہا کہ وہ ویڈیو تو پہلے ہی فیس بک وغیرہ پر موجود ہے، تاہم وکلا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر اس سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ دکھایا جا رہا ہے، نہ کہ ویڈیو۔
عدالت نے استغاثہ کو ہدایت کی کہ تفتیشی افسر اور آئی ٹی کے ماہر کو عدالت میں بلا کر ملزمان کے وکلا کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی پانچ کاپیاں فراہم کی جائیں۔
ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ سے حاصل ہونے والے آئی فون ایکس، جس کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے لیبارٹری بھیجا گیا تھا، کی رپورٹ پولیس کو موصول ہو گئی ہے، جس کے مطابق پاس ورڈ کے بغیر فون میں موجود ڈیٹا ضائع ہو سکتا ہے۔