سابق پاکستانی سفیر کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کیس میں بدھ کو خاتون پولیس اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے لاش کے خون آلود سلیٹی (گرے) رنگ کی ٹی شرٹ اور دوسرے کپڑے اکٹھے کر کے متعلقہ پولیس اہلکاروں کے حوالے کیے تھے۔
خاتون پولیس اہلکار اقصیٰ رانی اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن محمد عطا ربانی کی عدالت میں استغاثہ کے دوسرے گواہ کی حیثیت سے اپنا بیان ریکارڈ کرا رہی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نور مقدم کے جسم پر آٹھ زخم تھے، جن میں چار چھاتی کے بائیں جانب اور تین دائیں جانب تھے، جب کہ ایک ماتھے پر تھا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں بدھ کو راستے بند ہونے کے باعث مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت دوسرے ملزمان کو عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا جس پر مدعا علیہان کے وکلا نے اعتراض اٹھایا اور سماعت موخر کرنے پر زور دیا۔
اس پر ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ جج محمد عطا ربانی نے کہا ’اگر آپ اگلی تاریخ لینا چاہتے ہیں تو بتا دیں، گھما پھرا کر بات نہ کریں۔‘
تاہم ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ جج محمد عطا ربانی کے حکم پر ملزمان کی حاضری مکمل کرنے کے لیے سکائپ کی سہولت استعمال کی گئی اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت دوسرے ملزمان نے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کی کارروائی میں حصہ لیا تاہم مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ضمانت پر رہا والدہ عصمت جعفر اور تھیراپی ورکس کے سربراہ اور اہلکار کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
استغاثہ کی گواہ خاتون پولیس اہلکار اقصیٰ رانی نے عدالت کو بتایا کہ وہ 20 جولائی کی رات ویمن تھانے کی ایس ایچ او مصباح کے ساتھ سیکٹر ایف سیون فور کے مکان نمبر سات پہنچیں جہاں انہوں نے لاش کا معائنہ کیا، اور بعد ازاں تفصیلات سے تفتیشی افسر کو آگاہ کیا۔
اقصیٰ رانی نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر نے انہیں پوسٹ مارٹم کروانے اور لاش مردہ خانے میں رکھنے کے لیے ایک درخواست دی تھی، جب کہ پوسٹ مارٹم کی غرض سے وہ (اقصی رانی) اور اے ایس آئی دوست محمد پولی کلینک ہسپتال لاش کے ہمراہ گئے۔
استغاثہ کے گواہ کے بیان کے مطابق پوسٹ مارٹم مکمل ہونے پر میڈیکل آفیسر نے لاش مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے حوالے کی تھی۔
ملزمان کے وکلا کی جرح کے دوران پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں اقصیٰ رانی نے کہا کہ انہیں لاش مارچری لے جانے کا وقت یاد نہیں ہے۔ ’تقریباً سوا بارہ سے ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقصیٰ رانی ملزمان کے وکلا کے استفسار پر اپنا جائے وقوع پہنچنے کا وقت بھی نہ بتلا سکیں۔
عدالت کی کارروائی شروع ہوتے ہی ملزمان کے وکلا نے بعض دستاویزات کی عدم فراہمی کا ایک مرتبہ پھر تذکرہ کیا، جس پر جج نے وقفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ تمام بیانات کی کاپیاں مدعا علیہان کے وکلا کو فراہم کریں۔
وقفے کے بعد مرکزی ملزم ذاکر جعفر نے عدالت کو مطلع کیا کہ انہوں نے اپنا وکیل تبدیل کر دیا ہے۔ ایڈوکیٹ بشارت اللہ نے عدالت میں ظاہر جعفر کے وکیل کی حیثیت سے اپنا وکالت نامہ جمع کرایا۔
جائے وقوعہ سے رپورٹ (استغاثہ) تھانے لے جانے والے پولیس اہلکار عابد لطیف نے استغاثہ کے گواہ کی حیثیت سے بیان ریکارڈ کرایا۔
انہوں نے کہا کہ وہ 20 جولائی کو جائے وقوعہ پر زبیر مظہر کے پاس پہنچے، جنہوں نے مدعی شوکت علی مقدم کا تحریری بیان ان کے حوالے کیا، جسے وہ لے کر تھانہ کوہسار پہنچے اور سینئیر سب انسپکٹر رضا محمد کو تحریر شدہ بیان دیا۔
انہوں نے کہا کہ سینئیر سب انسپکٹر رضا محمد نے مقدمہ کی کاپی اور استغاثہ میرے حوالے کیے، جو انسپکٹر عبدالستار کو دیں، اور انہوں (عبدالستار) نے ان کا بیان بھی لکھا ۔
جرح کے دوران ملزمان کے وکلا کے ایک سوال کے جواب میں عابد لطیف نے بتایا کہ انہوں نے جائے وقوعہ سے کسی کو گرفتار نہیں کیا تھا۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیان میں انہوں نے کوئی وقت بھی درج نہیں کیا تھا۔
استغاثہ کے چوتھے گواہ کی حیثیت سے اے ایس آئی بشارت رحمان کا بیان بھی عدالت میں ریکارڈ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 20 جولائی کوان کی تعیناتی ون فائیو کے اہلکار کی حیثیت سے تھی، اطلاع ملنے پر وہ جائے وقوعہ پہنچے، جہاں انہوں نے گرفتار ملزم ظاہر جعفر کے فنگر پرنٹس حاصل کیے، اور ان کے الگ الگ کارڈز بنائے۔
آئندہ سماعت (3 نومبر) پر نقشہ نویس عامر شہزاد، اے ایس آئی محمد ریاض، ہیڈ کانسٹیبل فراست فہیم اور کمپیوٹر آپریٹر مدثر استغاثہ کے گواہوں کی حیثیت سے بیانات ریکارڈ کروائیں گے۔