بیلاروس کی سرحد پر ہزاروں تارکین وطن کے جمع ہونے سے پیدا ہونے والے یورپی ممالک کے بحران میں روس نے بیلاروس کی حمایت میں بیلاروس کی فضائی حدود میں جوہری صلاحیت سے لیس بمبار طیارے بھیجے ہیں۔
پولینڈ اور بیلاروس کی سرحد کے قریب بیلاروس کی فضاؤں میں جمعرات کو روسی بمبار طیارے مسلسل دوسرے دن پرواز کرتے نظر آئے۔
بیلاروس کا اس وقت اپنے مشرقی یورپی ہمسائے پولینڈ کے ساتھ تنازع جاری ہے۔ اس کی پولینڈ کے ساتھ سرحد پر مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں سے ہزاروں تارکین وطن اور پناہ گزین جمع ہیں، جو پولینڈ کے ذریعے مغربی یورپ میں داخل ہونے کے خواہش مند ہیں۔
یورپی ممالک کا الزام ہے کہ بیلاروس خود پر لگی پابندیوں کے بدلے کے طور پر تارکین وطن کو استعمال کر رہا ہے، کیونکہ اس کے اپنی سرحدیں کھولنے سے ہزاروں تارکین وطن پولینڈ کے ذریعے یورپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
یورپی یونین نے بیلاروس کے آمرانہ صدر الیگزینڈر لوکاشینکو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ 2020 کے متنازع انتخابات کے بعد اپنی حکومت کے خلاف لگائی جانے والی پابندیوں کے جواب میں ’ہائبرڈ حملہ‘ کر رہے ہیں، جس میں پناہ گزینوں کی جانب سےغیر قانونی سرحد پار کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔
بیلاروس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب مہاجرین اور تارکین وطن کو یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش سے نہیں روکے گا۔
بیلاروسی صدر لوکاشینکو نے نیٹو اتحادیوں کی طرف سے ’جارحانہ کارروائیوں‘ کے تناظر میں فوجی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر کشیدگی کے درمیان روس نے بیلاروس کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ مغرب نے مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کیا ہے اور اس لیے یورپ میں پناہ لینے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روس کی قومی ایئرلائن ایروفلوٹ نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن کو بیلاروس لانے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے یورپی یونین اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر غور کررہی ہے۔
بیلاروس اور روس کے سیاسی، جنگی اور معاشی تعلقات ہیں اور روس نے اس ہفتے شروع ہونے والے یورپی تنازعے میں بیلاروس کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اپنے جنگی طیارے بھی اس کی فضاؤں میں بھیجے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بیلاروسی وزارت دفاع نے کہا کہ جمعرات کو دو روسی ٹی یو160 بمبار طیاروں نے روزانی فائرنگ رینج پر بمباری کی مشق کی، جو پولینڈ کی سرحد سے 37 میل مشرق کی جانب واقع ہے۔
روس نے یہ بمبار طیارے دوسرے روز بھی بیلاروس کے تربیتی مشن پر بھیجے۔ روسی ٹی یو22M3 بمبار طیاروں کے ایک جوڑے نے بدھ کو اسی طرح کی ایک پرواز کی اور بیلاروس کے فضائی دفاعی نظام نے انہیں روکنے کی مشق کی۔
روسی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مشق ’کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں تھی۔‘
لیکن روس کے اقوام متحدہ میں نائب سفیر دمتری پولیانسکی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں صحافیوں کو بتایا: ’یہ پولش اور بیلاروسی سرحد پر بڑے پیمانے پر تعمیرات کا جواب ہے۔‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیلاروس اور یورپی یونین کے درمیان کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمعرات کو ہنگامی اجلاس میں یورپی ممالک اور امریکہ نے بیلاروس کی مذمت کی، جبکہ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ تقریباً دو ہزار تارکینِ وطن کے بارے میں سفارتی طور پر بیلاروس کے ساتھ بات چیت شروع کرے۔
ان تارکین وطن میں خاص طور پر مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے کرد شامل ہیں، جو بیلاروس اور پولینڈ کے درمیان سرحد پر خیمے لگا کر سخت سرد موسم میں رہ رہے ہیں۔
پولینڈ تارکین وطن کو سرحد عبور کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہے اور منسک پر الزام لگا رہا ہے کہ وہ حکومت پر پابندیوں کا بدلہ لینے کے لیے انہیں سرحد پار کے لالچ دے رہا ہے۔
یورپی یونین نے اب تک بیلاروس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو کے ساتھ کسی بھی قسم کا براہ راست رابطہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان حالات میں بیلاروسی صدر نے جمعرات کو خبردار کیا تھا کہ کسی بھی نئی پابندی سے بیلاروس یورپ کو قدرتی گیس کی ترسیل کو منقطع کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم یورپ کو گرمائش فراہم کر رہے ہیں اور وہ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔ اگر ہم قدرتی گیس کی سپلائی روک دیں تو کیا ہوگا؟‘
یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ یورپی یونین آئندہ ہفتے تارکین وطن کے بحران کی وجہ سے بیلاروس پر انسانی سمگلنگ کی مد میں نئی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کرے گی، جس کے جواب میں بیلاروسی صدر نے گیس سپلائی معطل کرنے کی دھمکی دی۔
تنازع کیسے شروع ہوا؟
تارکین وطن کئی مہینوں سے سرحد عبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ بحران اس وقت وجود میں آیا جب پیر کو سینکڑوں افراد نے پولینڈ کی طرف بڑھنے کی کوشش کی اور سرحدی محافظوں نے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔
پولش اخبار گیزیٹا وائبورکزا کے مطابق حالیہ مہینوں میں کم از کم 10 تارکین وطن سرحد پر ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے سات پولش سرحد کی طرف تھے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی، انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن اور ریڈ کراس کی ٹیموں نے جمعرات کو کیمپ کا دورہ کیا تاکہ حالات کا جائزہ لیا جا سکے اورامداد فراہم کی جا سکے۔
پولش حکام نے ہنگامی قوانین کے تحت صحافیوں اور خیراتی کارکنوں کی آمد و رفت پر سرحدی علاقے میں پابندی عائد کر دی ہے۔