بلوچستان میں بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ’دانش‘ کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2020 سے لے کر ستمبر2021 کے دوران بلوچستان میں بچوں پر تشدد کے ایک ہزار دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 345 کیسز بچیوں جبکہ 657 واقعات لڑکوں کے ساتھ رونما ہوئے ہیں تاہم سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعداد اس سے بہت کم ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ’دانش‘ بچوں سے متعلق دو دہائیوں سے بلوچستان میں کام کر رہی ہے۔
جبکہ محکمہ انسانی حقوق کی جانب سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں سال 2021 کے دوران بچوں پر تشدد کے 59 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جس میں قتل کے 10، لاشیں پھینکنے کے نو، زیادتی کے سات، تشدد کا ایک، اغوا کے چار، گمشدگی کے نو اور بم دھماکوں میں زخمی ہونے کے تین واقعات شامل ہیں۔
ان واقعات میں 56 واقعات جنسی زیادتی، 253 جسمانی تشدد جو زیادہ تر سکولوں میں یا پھر والدین اور ہمسایوں کی طرف سے کیا گیا، رپورٹ ہوئے ہیں۔
سات سالہ بی بی لائبہ (فرضی نام) محلے کے دیگر بچوں کے ساتھ معمول کے مطابق گلی میں کھیلا کرتی تھیں۔ ایک روز لائبہ کے چچا محمد صدیق کام سے جلدی فارغ ہو کر گھر واپس لوٹے تو انہیں معلوم ہوا کہ لائبہ گھر میں موجود نہیں تھیں۔
محمد صدیق نے بچی کی والدہ سے دریافت کیا تو انہیں بھی لائبہ کے بارے میں علم نہیں تھا، جس کے بعد وہ گھر سے نکلے اور گلی میں کھیلنے والے دیگر بچوں سے لائبہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ لائبہ پڑوسی کے گھر میں ہے۔
محمد صدیق نے بتایا: ’میں نے ہمسائے کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انہوں نے نہیں کھولا۔ تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے دروازہ کھولا تو میں نے اپنے ہمسائے، جو اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا، سے دریافت کیا۔ پہلے اس نے کہا کہ ’لائبہ نے مجھ پر حملہ کیا ہے،‘ پھر کہنے لگا، ’جنات نے مجھ پر اور لائبہ پر حملہ کیا ہے۔‘
محمد صدیق بتاتے ہیں کہ ’میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو بچانے والا کوئی نہیں تھا؟‘ تو اس نے کہا کہ ’بچے باہر تھے۔ میں نے چیخیں ماریں لیکن لائبہ نے مجھے گلے سے پکڑ رکھا تھا، جس کی وجہ سے میری آواز نہیں نکل رہی تھی لیکن میں نے پھر زور لگا کر دروازہ کھولا اور باہر کھڑے اپنے بیٹے کو بلایا۔‘
محمد صدیق کہتے ہیں کہ بچی کو ڈھونڈے کی کوشش کی گئی تو وہ سرفراز کے گھر کے غسل خانہ سے ملی اور لڑکھڑا کر چل رہی تھی، جس پر وہ بچی کو اس کی والدہ کے پاس لے گئے۔
لائبہ کی والدہ نے صدیق کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے۔
صدیق کے مطابق: ’میں اور لائبہ کے والد بچی کو ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
محمد صدیق نے تھانے میں دفعہ 377 (ناقابل ضمانت) کے تحت ایف آئی آر درج کروائی اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔
متاثرہ بچی کے چچا محمد صدیق نے مطالبہ کیا کہ ہر گلی اور محلے میں چھوٹے چھوٹے اور معصوم پھول جیسے بچے ہیں، حکومت ایسے ملزمان کو سخت سزا دے تاکہ آئندہ کوئی ایسا سوچے بھی نہ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بچوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کے اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 40 سے زائد کیس درج کیے گئے ہیں جن میں بچوں اور بچیوں دونوں کے کیسز شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز کی شرح زیادہ ہے۔
بلوچستان میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2016 میں منظورہوئی لیکن صوبے میں پہلے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کا افتتاح اس وقت کے صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود و انسانی حقوق میر اسد اللہ بلوچ نے 10 فروری 2020 کو کیا تھا۔ یہ پروٹیکشن یونٹ محکمہ سماجی بہبود کے زیرانتظام اور بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کوئٹہ شہر میں بچوں سے متعلق شکایات کے اندراج، بچے کی حفاظت کے منصوبے، درج کیسز کی پیروی اور معلومات محفوظ کرنے کے ساتھ ضرورت کی صورت میں بچوں کو دوسرے متعلقہ محکمے کو ریفر کرتا ہے۔
اس کے علاوہ سہولیات و خدمات کی فراہمی کے علاوہ ضلعی سطح پر بچوں کی حفاظت کے اقدامات اور اس کی مانیٹرنگ کی ذمہ داری بھی یونٹ کے عملے پر ہے۔
محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے سال 18-2017 کے دوران بلوچستان میں سات اضلاع، جن میں کوئٹہ، لورالائی، سبی، نصیرآباد، خضدار، کیچ اور تربت شامل ہیں، میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کے قیام کی منظوری دی گئی ہے، جس کے لیے آفیسرز بھی بھرتی کیے گئے ہیں، تاہم اب تک صرف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں یونٹ کا افتتاح ہو چکا ہے۔
سعید احمد بچوں کے تحفظ سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم دانش کے ساتھ وابستہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ایک چھپی ہوئی سچائی ہے۔ بلوچستان میں لوگوں کی جانب سے خاندان کی بدنامی کے باعث ایسے کسیز رپورٹ نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے یہاں فرانزک لیبارٹری نہ ہونے سے آدھے ملزمان جرم ثابت نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں۔ بلوچستان میں جنسی زیادتی کے کیسز میں سزا دلانے کے لیے فرانزک لیب کی اشد ضرورت ہے کیونکہ زیادتی کے کیسز میں ثبوت کے اثرات 72 گھنٹے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’کوئٹہ میں قائم چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔ ہم نے اپنی تنظیم کی سطح پر متاثرہ بچوں و اہل خانہ کو نہ صرف قانونی و دیگر معاونت فراہم کی ہے بلکہ اس سلسلے میں شعور وآگاہی کے لیے بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اب تک سات ہزار سیشنز منعقد کر کے سکولوں اور دیگر پلیٹ فارمز پر بچوں کو اپنی حفاظت سے متعلق آگاہی دی گئی ہے۔‘
سعید احمد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں عدالتوں میں کیسز کی سماعت کے دوران بہتر ماحول فراہم کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے تاکہ بچے بغیر کسی دباؤ کے اپنی بات بتا سکیں۔
چیئرپرسن ویمن پارلیمنٹرین کاکس فورم ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی کہتی ہے کہ بلوچستان میں فرانزک لیب کا قیام قانون سازی سے مشروط ہے، اس لیے ہماری کوشش ہے کہ اس حوالے سے مسودہ قانون کو حتمی شکل دے کر جلد از جلد ایوان میں پیش کیا جائے۔
پاکستان میں لاہور اور اسلام آباد کے بعد سندھ میں بھی فرانزک لیب قائم ہوچکی ہے جبکہ ایکٹ کی منظوری کے بعد کوئٹہ میں بھی اس کے قیام سے متعلق پیش رفت کو تیز کیا جائے گا۔
محکمہ سوشل ویلفیئر کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالولی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں چائلڈ پروٹکیشن یونٹس اس وقت عملے کی کمی اور سہولیات کے فقدان کا سامنا کر رہے ہیں۔ محکمہ سوشل ویلفیئر صوبے میں بچوں کو زیادتی سے بچانے کے لیے مہم چلا رہا ہے، جس میں کوئٹہ اور پشین کے 20 سکولوں میں 12 سے 13 سال تک کے عمر کے بچوں کو ویڈیوز کے ذریعے آگاہی دی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔
ریپ کے کیسز میں گواہ سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوشکی میں سات سالہ بچی سے زیادتی کرنے والے مجرم کی سات سال سزا کے خلاف اپیل کی نومبر میں سماعت کے دوران حکم صادر کیا تھا کہ اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے گواہان کی موجودگی ضروری نہیں بلکہ عدالت کے لیے صرف متاثرہ فریق کا تنہائی میں ریکارڈ کرایا گیا بیان ہی کافی ہوتا ہے کیوں کہ یہ جرم تنہائی میں ہوتا ہے، جس کے گواہان کا ملنا زیادہ تر ممکن نہیں ہوتا۔
تحریری فیصلے میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ریپ کیسز میں گواہ بہت مشکل سے ملتا ہے، لہٰذا ایسے میں عدالت متاثرہ شخص کے بیان پر انحصار کرتی ہے اور اس کی روشنی میں ملزم کو سزا دینا کافی سمجھتی ہے۔ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ریپ کا شکار شخص ایک عام زخمی گواہ کے مقابلے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیوں کہ ایک زخمی کو جسمانی طور پر گھاؤ لگتے ہیں جبکہ ریپ کا شکار نفسیاتی و جذباتی لحاظ سے بھی گھائل ہوتا ہے۔
نوشکی کیس میں مجرم کو ٹرائل کورٹ نے سات سال سزا اور پانچ لاکھ جرمانہ کیا تھا جسے بلوچستان ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔ ان فیصلوں کے خلاف مجرم کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلوں کی توثیق کر دی۔
مجرم نے دعویٰ کیا تھا کہ بچی کی ولدہ نے اس کیس میں پھنسانے کی کوشش کی جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ دفاع ناقابل قبول ہے کیونکہ کوئی بھی اپنی کم سن بیٹی کو جنسی زیادتی جیسے سنگین مقدمے میں بدنام نہیں کرنا چاہتا۔