نواب زادہ کلام اللہ خان کئی سال سے خاندان کی پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کو الیکٹرک ماڈلز کے ساتھ تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ جولائی میں پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکسز میں بڑی کمی کر دی گئی جس کے بعد انہوں نے دو الیکٹرک کاروں کا آرڈر دے دیا۔
دارالحکومت اسلام آباد کے رہائشی 29 سالہ تاجر کلام اللہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’بڑے شہروں میں بڑھتی فضائی آلودگی کے پیش نظر کسی کو تو سستی اور ماحول دوست گاڑیوں کی طرف جانے میں پہل کرنی تھی جو ہم نے کر دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پرانی گاڑیوں کے مقابلے میں نئی کاروں کا روزانہ کا استعمال پانچ گنا سستا ہے جو نئی گاڑیوں کی طرف جانے کے لیے بڑی ترغیب ہے۔
پاکستان اور بھارت کے بڑے شہر آلودگی کی خطرناک سطح کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستانی شہر لاہور کو اس ہفتے دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار دیا گیا۔ فاسل فیول سے بنے ایندھن کا بڑے پیمانے پر استعمال اور مخصوص موسم میں فصلوں کو جلانے سے اٹھنے والا دھواں سال کے اس حصے میں آلودگی کے مسئلے کو زیادہ سنگین بنا دیتا ہے۔
پاکستان میں تقریباً دو سال پہلے پرجوش گرین پالیسی متعارف کروائے جانے کے بعد الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کے عمل میں تیزی آئی ہے۔
اس پالیسی کے تحت 2030 تک ملک بھر میں 30 فیصد اور 2040 تک 90 فیصد الیکٹرک کاروں اور ٹرکوں کے استعمال کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں، ان کے پرزوں اور پاکستان میں کاروں کی تیاری کے لیے آلات کی درآمد پر ٹیکسز میں بڑا استثنیٰ دیا گیا جو پیٹرول سے الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی کی بڑی وجہ بنا۔
گاڑیوں کی صنعت کے اعدادوشمار کے مطابق اس عمل سے گاڑی رکھنا زیادہ آسان ہو گیا ہے جب کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کاربن کے اخراج اور شہری آلودگی میں کمی کے اپنے منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے۔
ٹیکسز میں کمی
سرکاری انجینیئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے جنرل مینیجر عاصم ایاز کا کہنا تھا کہ مقامی طور پر تیار کی جانے والی وہ الیکٹرک کاریں، جن میں 50 کلوواٹ آورز سے کم طاقت کی بیٹریاں لگی ہوئی ہیں، ان پر عائد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) 17 فیصد سے کم ہو کر تقریباً صفر ہو گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی الیکٹرک کار کے درآمد کیے جانے والے حصے جن میں بیٹریاں، کنٹرولرز اور انورٹرز شامل ہیں ان پر کسٹم ڈیوٹی ایک فیصد کر دی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایاز نے بتایا کہ مکمل تیار الیکٹرک کاروں کی درآمد پرعائد ڈیوٹی ایک سال کے لیے 25 فیصد سے کم ہو کر 10 فیصد ہو گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ٹیکسز میں کمی نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی پر عملدرآمد کی جانب بڑا قدم ہے۔
وفاقی کابینہ نے اس پالیسی کی منظوری نومبر 2019 میں دی تھی۔ اس پالیسی کا مقصد نقل و حرکت کے نظام میں 2025 تک پانچ لاکھ الیکٹرک موٹرسائیکلز اور رکشے، ایک لاکھ الیکٹرک کاریں، وینز اور چھوٹے ٹرک لانا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پر وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم کے بقول: ’الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکسز میں استثنیٰ سے قیمتوں میں لازمی طور پر مقابلے کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ کسٹمر کے لیے الیکٹرک گاڑی کو خریدنا بہت زیادہ پر کشش ہو گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر 2030 تک فروخت ہونے والی تقریباً ایک تہائی نئی کاریں بجلی پر چلتی ہیں، جیسا کہ سوچا گیا ہے، تو پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے اخراج اور آلودگی میں بڑی کمی آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوسل فیول پر چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں الیکٹرک گاڑیاں اس وقت وہ گیسز 65 فیصد کم پیدا کر رہی ہیں جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب ہیں۔
سوئس تنظیم آئی کیو ایئر نے گذشتہ سال ان ملکوں کی فہرست تیار کی جہاں ہوا کا معیار بدترین ہے۔ اس فہرست میں پاکستان بنگلہ دیش کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے 2019 میں ہونے والے ایک سروے میں یہ معلوم ہوا کہ پاکستان کے سب سے زیادہ گنجان آباد صوبے پنجاب، جس کا داراحکومت لاہور ہر سال اس موسم میں سموگ کا سامنا کرتا ہے، میں ہوا کو آلودہ کرنے والے مجموعی اخراج کا 40 فیصد تک حصہ ٹرانسپورٹ سیکٹر کا ہے۔ اس کے بعد صنعتیں اور زراعت کا شعبہ آتا ہے۔
شکوک کا خاتمہ
پاکستان الیکٹرک وہیکلز اینڈ پارٹس مینیوفیکچررز اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شوکت قریشی کا کہنا ہے کہ ٹیکسز میں نئی کمی کا مطلب ہے کہ چھوٹی درآمدی الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر پانچ لاکھ روپے تک بچت ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی ایسوسی ایشن کے بہت سے ارکان نے مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلی بار الیکٹرک گاڑیوں کا آرڈر دیا ہے۔
اس حوالے سے قابل بھروسہ اعداوشمار دستیاب نہیں ہیں کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسز میں کمی کے بعد الیکٹرک گاڑیوں کے مقامی درآمدکنندگان نے کتنی گاڑیاں ملک میں درآمد کیں۔
کار کمپنی ضیا الیکٹروموٹیو کے چیف آپریٹنگ افسر کی حیثیت سے شوکت قریشی نے بتایا کہ انہوں نے چین سے ایک سو چھوٹی الیکٹرک گاڑیاں منگوانے کا آرڈر دیا ہے اور ان کا ارادہ ہے کہ اس کے بعد وہ ہر ماہ سو گاڑیاں درآمد کریں گے۔
ای ڈی بی کے عاصم ایاز کے مطابق دنیا میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح پاکستانی بھی تاریخی اعتبار سے الیکٹرک گاڑیوں کی طرف آنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ چارجنگ کی سہولتوں کا فقدان اور اس کے بھاری اخراجات سمیت ’نامعلوم خوف‘ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے ماہر علی توقیر شیخ کہتے ہیں اس کا حل یہ ہے کہ حکومت دفاتر، گھروں اور پارکنگ ایریاز کے قریب مزید چارجنگ سٹیشنز لگانے میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خوف کے خاتمے کے لیے کہ الیکٹرک کارز کی ری سیل ویلیو اچھی نہیں، کاریں بنانے والے ڈیلرز کار واپس خریدنے کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ محض الیکٹرک گاڑیاں بیچنا پاکستان کی فضائی آلودگی اور گرین ہاؤس گیس اخراج کو کم کرنے کے لیے کافی نہیں کیونکہ روایتی گاڑیوں کی فروخت اب بھی ہر سال بڑھ رہی ہے۔
علی توقیر شیخ نے کہا کہ حکومت کو فاسل فیول سے چلنے والی اور ہائیبرڈ گاڑیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ان پر ٹکیسوں کو بڑھانا ہوگا اور الیکٹرک گاڑیاں خریدنے کے خواہش مندوں کے لیے آسان اقساط پر بینک قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔