سال 1996 میں اقوام متحدہ نے 21 نومبر کو ٹیلی ویژن کا عالمی دن قرار دیا تھا۔ اس دن کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خط کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کی ٹیلی ویژن پروگرامز کی تجارت کی حوصلہ افزائی کرنا تھا، خاص طور پر ان کی جو امن اور ثقافتی امور کو فروغ دیتے اور سماجی مسائل کو تقویت بخشتے ہیں۔
افغانستان ان ممالک میں سے ایک ہے جسے ٹیلی ویژن تک رسائی اپنے تمام پڑوسیوں کے مقابلے میں بہت دیر سے ملی۔ سردار محمد داؤد خان کی حکومت کے آخری سالوں میں، افغان ٹیلی ویژن کے قیام کا منصوبہ شروع کیا گیا اور ان کی حکومت کے آخری ماہ میں آریانہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نام سے میڈیا نے اپنے پروگرامز کی شروعات کیں۔
سردار محمد داؤد کے زوال اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی، حکومت کے سربراہ نور محمد تراکئی نے ملک کے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کا باضابطہ افتتاح کیا۔ اس وقت اس کے پروگرام صرف کابل میں ہوتے تھے۔ چونکہ لوگ ٹیلی ویژن سے ناواقف تھے لہذا حکومت نے پروگرام دکھانے کے لیے شام سے ہی کابل کے مختلف حصوں میں بہت سے ٹیلی ویژن سیٹ فراہم کیے۔ اس وقت زیادہ تر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کی تقاریر اور ان کی پارٹی کے اجلاسوں پر مشتمل مواد نشر ہوتا تھا۔
1978 اور 1992 کے درمیان افغان ٹیلی ویژن کی نشریات کے اوقات میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ ہر دن شام 6 بجے شروع ہوتا تھا اور آدھی رات کو 12 بجے ختم ہو جاتا تھا۔ جمعہ کے روز یہ پروگرام صبح 9 سے دوپہر 12 بجے تک نشر کیا جاتا تھا۔ صرف سردار محمد داؤد کے خلاف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی بغاوت کی برسی کے موقع پر کابل میں انقلابی پریڈ کی وجہ سے افغان ٹیلی ویژن پر پروگراموں کی براہ راست نشریات صبح سویرے شروع ہو جاتی تھیں۔
افغان ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا مواد زیادہ سیاسی تھا۔ ملاقاتیں، سیاسی پروگرام اور افغان حکومت کے اہلکاروں کے دورے ٹیلی ویژن کے نشریاتی وقت کا ایک بڑا حصہ تھے۔ روزانہ ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں فارسی اور پشتو میں دو گھنٹے کے نیوز پروگرام بھی شامل تھے۔ فلم ہفتے میں صرف دو بار دکھائی جاتی تھی۔ جمعرات کی رات بھارتی فلمیں اور اتوار کی شب مغربی فلمیں (زیادہ تر مشرقی یورپی پروڈکشنز سے)۔
1992 میں ’مجاہدین‘ نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا۔ لیکن اقتدار کی یہ تبدیلی، جو پرامن طریقے سے ہوئی، کابل میں تباہ کن اندرونی تنازعات کا باعث بنی۔ کابل کے اندر مختلف جہادی جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں۔ جمعیت اسلامی پارٹی جس کے پاس اقتدار میں سب سے زیادہ حصہ تھا اور کابل کے زیادہ تر حصے پر حکومت کی تھی، گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی، عبدالرشید دوستم کی اسلامی تحریک اور مزاری کی اسلامی اتحاد پارٹی کے خلاف جنگ میں اتری۔
چونکہ کابل کا بیشتر حصہ بشمول افغان ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت کے جماعت اسلامی کے کنٹرول میں تھیں اس لیے ان پر کئی راکٹ فائر کیے گئے۔ اس حملے میں ان کے متعدد ملازمین ہلاک ہوئے اور ٹیلی ویژن کی عمارت کا کچھ حصہ بشمول سیٹلائٹ کو نقصان پہنچا۔ ماؤنٹ سمائی (جو افغان ٹیلی ویژن کا مرکزی ٹرانسمیٹر تھا) کے اردگرد جنگ نے اسے بھی تباہ کر دیا۔
1996 میں جب طالبان اقتدار میں آئے تو افغان ٹیلی ویژن کی نشریات کو ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے کسی بھی ویڈیو نشریات کی مخالفت کی۔
طالبان کا زوال اور نجی میڈیا کا تیزی سے پھیلنا
طالبان کے زوال اور 2001 میں جمہوری حکومت کی واپسی کے ساتھ ہی افغانستان میں آزاد اور خودمختار میڈیا کے قیام کا عمل شروع ہوا۔ افغانستان کی مدد کرنے والی تنظیموں اور اداروں نے ملک میں جمہوریت کو ادارہ جاتی بنانے کے لیے ایک آزاد اور غیرجانبدار میڈیا کے قیام کی حمایت اور مالی معاونت کی۔
عام خیال کے برعکس پہلا نجی اور آزاد ٹیلی ویژن سٹیشن کابل میں نہیں بلکہ مغربی افغانستان کے ایک دور افتادہ شہر میں قائم کیا گیا تھا۔ ہرات شہر سے 100 کلومیٹر مغرب میں واقع غوریان شہر میں طالبان کے زوال کے چند ماہ بعد قائم ہونے والا ’غوریاں ٹی وی‘ اپنے پروگراموں کی نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بعد ’مرر ٹی وی‘ نے مارشل عبدالرشید دوستم کے تعاون سے شمالی افغانستان کے شہر شبرغان میں کام شروع کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن میڈیا کی سرگرمیوں میں بنیادی تبدیلی طلوع ٹی وی کی آمد کے بعد آئی۔ نوجوانوں کو راغب کرنے کی کوشش میں، ٹیلی ویژن سٹیشنوں نے افغانستان میں مختلف پروگراموں کی تیاری اور نشریات شروع کیں۔ افغان علما، مذہبی شخصیات اور دیگر کئی افراد نے طلوع ٹی وی کا ایک ایسے ادارے کے طور پر حوالہ دیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ’اخلاقی انحطاط کو فروغ دیتا ہے۔‘
تاہم، طلوع ٹی وی اپنی اختراعات اور نئے پروگراموں کی وجہ سے افغانستان میں زیادہ مقبول ہوا۔ اس میڈیم سے پہلی بار بھارتی سیریل مکمل ڈبنگ کے ساتھ نشر کیا گیا۔ اس سے پہلے عام طور پر ایک یا دو لوگ کسی سیریز یا فلم کے تمام کرداروں کے الفاظ کو ڈب کرنے کے ذمہ دار ہوتے تھے۔
افغان سیاست دانوں نے بصری میڈیا کے اثرات کو دیکھ کر اپنی آستینیں چڑھا لیں اور یکے بعد دیگرے کئی بصری اور صوتی میڈیا قائم کیے۔
طالبان اب میڈیا کے بااثر اور فیصلہ کن کردار کو بھانپ چکے ہیں۔ جمہوریہ کے زوال اور طالبان کی واپسی کے ساتھ، اس گروپ میں صرف فرق میڈیا کے ساتھ بات چیت کا ہے۔ اپنے اقتدار میں آنے کے پہلے ہی دنوں میں طالبان رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ میڈیا اور صحافیوں کی حمایت کریں گے۔ لیکن اسی دوران متعدد میڈیا کارکنان کو قتل کر دیا گیا۔ طالبان کے رجعت پسندانہ خیالات کی وجہ سے افغان صحافیوں کی بڑی تعداد نقل مکانی کر گئی ہے اور بہت سے میڈیا اداروں نے کام بند کر دیا ہے۔
طالبان نے میڈیا کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے مواد کو ان کے خیالات اور رویوں کے مطابق بنائیں۔ افغانستان میں طالبان کی موجودگی کے تین ماہ بعد ملک کے ٹیلی ویژن پر اب کوئی جوش و خروش نہیں ہے۔ موسیقی بالکل نشر نہیں ہوتی اور ’خبر‘ کے شعبوں نے طالبان کے خوف سے سیلف سنسرشپ کا سہارا لیا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوچکی ہے۔