وزیراعظم عمران خان آج فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تمباکو، سیمنٹ، چینی اور کھاد کے شعبوں کے لیے ’ٹریک اینڈ ٹریس سلوشن‘ کے نئے نظام کا افتتاح کر رہے ہیں۔
حکومت کو توقع ہے کہ اس نظام سے ٹیکس آمدن میں اضافہ، جعل سازی میں کمی اور پیداواری حجم کے مضبوط، ملک گیر، الیکٹرانک مانیٹرنگ نظام کے نفاذ کے ذریعے ناجائز اشیا کی سمگلنگ کو روکنا اور پیداواری مرحلے پر مختلف مصنوعات پر پانچ ارب روپے سے زائد ٹیکس سٹیمپ لگانا ہے۔ اس نظام سے ایف بی آر پورے سپلائی چین میں سامان کا سراغ لگا سکے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس نظام کا مقصد معاشی سرگرمیوں کی ڈیجیٹلائزیشن میں تیزی لانا، ریونیو کو بہتر بنانا اور مارکیٹ میں جعلی مصنوعات کی روک تھام بھی ہے۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے بتایا کہ اس سے چار کروڑ 50 لاکھ ٹن سیمنٹ، چار ارب سگریٹ، 40 لاکھ ٹن چینی اور چار کروڑ ٹن کھاد ٹیکس نیٹ میں آئیں گے۔
ایف بی آر کی جانب سے لائسنسنگ رولز 2019 اور پی پی آر اے کے قواعد 2004 کے مطابق مشترکہ اعلیٰ سکور کی بنیاد پر اے جے سی ایل (پرائیوٹ) لمیٹڈ، آتھنٹیکس انکارپوریشن اور مٹاس کارپوریشن پر مشتمل کنسورشیم کو ’سب سے زیادہ فائدہ مند بولی‘ قرار دیا گیا۔
A Contract has been signed between Federal Board of Revenue (FBR) and AJCL along with its lead partner Authentix Inc. USA and Mitas Corporation of South Africa to operationalize Track & Trace Solution on Tobacco, Cement, Sugar and Fertilizer Sectors. 1/10@MJavedGhani
— FBR (@FBRSpokesperson) March 5, 2021
ایف بی آر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس کی تصدیق کی گئی اور کہا گیا کہ ’ان شعبوں کے بارے میں ٹریک اینڈ ٹریس سلوشن کو چلانے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اے جے سی ایل کے ساتھ اس کے اہم شراکت دار آتھنٹیکس انکارپوریشن امریکہ اور جنوبی افریقہ کی مٹاس کارپوریشن کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے۔‘
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے مخصوص اشیا جیسے تمباکو، سیمنٹ، چینی اور کھاد کی انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے تحت الیکٹرانک مانیٹرنگ کے پانچ سالہ لائسنس کے اجرا کے لیے پری بڈنگ کانفرس کا اہتمام سال کے اوائل میں کیا تھا۔
کانفرس کی صدارت ممبر آئی آر آپریشنز ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے کی۔ ممبر آئی آر آپریشنز اور پراجیکٹ ڈائریکٹر نے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کی افادیت، خصوصیات اور پاکستان میں اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کے باعث انسانی عمل دخل کم سے کم ہو جائے گا۔ ریونیو کے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے گا اور مخصوص اشیا کی کم فروخت کو ظاہر کرنے کا رحجان کم ہو گا اور وقت پر ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی۔
لیکن اس معاہدے کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے میسرز اے جے سی ایل کنسورشیم کو دیئے کنٹریکٹ کے خلاف اپیل بعد میں خارج کر دی تھی۔ تاہم اس تاخیر کے بعد اب ایف بی آر اسے نافذ کرنے میں سنجیدہ ہے۔
ایف بی آر نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا: ’اس نظام سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا، جعل سازی میں کمی آئے گی اور غیر قانونی سامان کی سمگلنگ کی روک تھام ہوگی۔‘
خیال ہے کہ ٹریک اینڈ ٹریس پروڈکشن مرحلے پر مختلف مصنوعات پر پانچ ارب روپے سے زائد ٹیکس سٹیمپ لگانے اور ملک بھر میں الیکٹرانک مانیٹرنگ سسٹم پر عمل درآمد سے ایف بی آر کو سپلائی چین میں سامان کو ٹریک کرنے میں مدد ملے گی۔
Track and Trace involves implementation of a robust, nationwide,electronic monitoring system of production volumes by affixation of more than 5 billion tax stamps on various products at the production stage,which will enable FBR to track the goods throughout the supply chain.5/10
— FBR (@FBRSpokesperson) March 5, 2021
تاہم، چینی کی صعنت نے اس نظام کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا اور دعویٰ کیا کہ تھیلوں پر ٹی ٹی ایس سٹکر سٹیمپ چسپاں کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ یہ ہٹ جائیں گے اور آخر کار ٹیکس چوروں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ ’پولی پروپیلین بیگز پر نئی ٹیکنالوجی کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سٹکرز ان پر چپکے نہیں رہیں گے۔‘
وزیراعظم عمران خان کو اس سال اگست میں لکھے گئے ایک خط میں، پاکستان پولی پروپیلین ووون ساک مینوفیکچرز ایسوسی ایشن (PPWSMA) نے ٹی ٹی ایس نے تھیلوں پر کوئیک رسپانس (QR) کوڈ پرنٹ کرنے پر زور دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خط میں، پی پی ڈبلیو ایس ایم اے کے چیئرمین سکندر خان، جو پی ایس ایم اے کے چیئرمین بھی ہیں، نے کہا، ’ہم نے ایف بی آر سے درخواست کی ہے کہ تمام پولی پروپیلین فیکٹریوں کے لیے چینی، کھاد، سیمنٹ، گندم کے لیے تیار کردہ تھیلوں پر کیو آر کوڈ پرنٹ کرنے کی شرط عائد کی جائے۔ بظاہر حکومت کے اس پر عمل درآمد کے اعلان سے لگتا ہے کہ ان تحفظات کو دور کر دیا گیا ہے۔‘
اس نظام کے فعال ہونے کے بعد یہ صنعتیں ٹیکس سٹیمپ کے بغیر مارکیٹ میں اپنی مصنوعات نہیں بیچ سکیں گی اور ایف بی آر سیلز سٹیمپ کے بغیر مارکیٹ میں موجود سگریٹ، چینی، سیمنٹ اور کھاد قبضے میں لے سکے گا۔
ایک اندازے کے مطابق صرف ان صنعتوں میں سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے جبکہ کارٹیلوں کا بن جانا بھی حکومت کے لیے سردرد ہے۔
اس قانون کے تحت ہر پراڈکٹ پر بشمول ٹن، کنٹینر یا بوتل، مخصوص اشیا چاہے تیار کی گئی ہوں یا درآمد کی گئی ہوں، متعین کردہ طریقے سے ٹیکس سٹیمپ، بینڈیرول، سٹکر، لیبل، بارکوڈ وغیرہ لگائی یا چھاپی جائیں گی: بشرط یہ کہ ایسی مخصوص اشیا کے سلسلے میں جو مستثنیٰ ہوں یا برآمدی ٹیکس ڈاک ٹکٹوں کے لیے ہوں، اس پر لگانے کی ضرورت نہ ہو، لیکن واضح طور پر، قابل فہم اور انمٹ طور پر ’مستثنیٰ سامان‘ یا ’برآمد کے لیے‘ کے طور پر نشان لگایا جائے گا۔
یہ ٹکٹیں ان مصنوعات پر لگائی جا سکتی ہیں جو پانچ سے 90 ڈگری سیلسئیس کے درمیان ہوں۔
اگلے مرحلے میں ایف بی آر ٹریک اینڈ ٹریس نظام کو مشروبات اور پٹرولیم سیکٹر میں بھی لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔