پانچ ماہ کے تعطل کے بعد 2015 کے ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان پیر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مذاکرات کا آغاز ہو گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یورپی یونین، ایران اور روس کے سفارت کاروں نے مذاکرات کو مثبت قرار دیا ہے حالانکہ ایران نے عوامی سطح پر سخت مؤقف اختیار کیا جس کے بارے میں مغربی طاقتوں کا کہنا تھا کہ اس سے بات نہیں بنے گی۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان اس ایٹمی معاہدے کو بچانے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے جس سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں الگ ہو گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیلس کوبرگ ہوٹل میں مذاکرات کا آغاز مقامی وقت کے مطابق شام تین بجے ہوا جہاں 2015 کا معاہدہ ہوا تھا جسے کمپری ہنسو پلان آف ایگریمنٹ (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے۔
بات چیت دو گھنٹے سے کچھ زیادہ دیر تک جاری رہی۔ روئٹرز کے مطابق یورپی یونین، ایران اور روس کے نمائندوں نے امریکہ کے بغیر دیگر فریقوں کے ایران کے ساتھ مذاکرات کے دور کو امید افزا قرار دیا ہے۔
امریکہ بات چیت میں براہ راست شامل نہیں کیونکہ ایران اس کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتا۔
مذاکرات کا دور ختم ہونے کے بعد اس کی صدارت کرنے والے یورپی یونین کے نمائندے اینریکے مورا نے کہا: ’میں نے آج جو کچھ دیکھا اس کے حوالے سے انتہائی پر امید ہوں۔‘
ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے یہ ساتواں دور تھا جس کے تحت ایران نے امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے جواب میں یورنیم کے افزودگی کے پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔
مورا نے صحافیوں کو بتایا کہ ایران اپنے اس مطالبے پر قائم ہے کہ اس پر عائد تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران نے اپریل اور جون میں ہونے والے مذاکرات کے گذشتہ ادوار کے نتائج کو یکسر مسترد نہیں کیا۔
مورا کے بقول: ’انہوں (ایران) نے تسلیم کر لیا ہے کہ مذاکرات کے پہلے چھ ادوار اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے اچھی بنیاد ہے۔ بلاشبہ ہم ایران کی نئی انتظامیہ کے نئے سیاسی تحفظات کو مذاکرات میں شامل کریں گے۔‘
مذاکرات میں شامل روس کے نمائندے میخائل الیانوف نے ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ مذاکرات خاصی کامیابی کے ساتھ شروع ہوئے۔
دوسری طرف اعلیٰ ایرانی مذاکرات کار علی باقری کنی سے جب صحافیوں نے سوال کیا وہ پر امید ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہاں میں ہوں۔‘
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ایران مذاکرات کو اسی مقام سے دوبارہ شروع کرنے پر متفق ہو گیا جہاں وہ جون میں ان سے الگ ہوا تھا، جو مغربی ملکوں کا مطالبہ تھا، یا پھر یہ کہ مذاکرات سے پر امید ہونے کا جواز ابھی بنتا ہے یا نہیں۔
اے ایف پی کے مطابق بالواسطہ طور پر مذاکرات میں حصہ لینے والے امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران کے حالیہ اقدامات ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے نیک شگون نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روئٹرز کے مطابق ایک یورپی سفارت کار نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور بعض اوقات ان کا مؤقف سخت ہو جاتا ہے جو بمشکل ہی حوصلہ افزا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورت حال اس وقت واضح ہو گی جب منگل کو پابندیوں اور بدھ کو ایٹمی معاملات پر تفصیلی بات چیت ہو گی۔
مذاکرات جون میں مغربی ملکوں کے خلاف سخت مؤقف رکھنے والے صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد تعطل کا شکار تھے۔
یہ مذاکرات ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ طور پر ہونے والی مؤثر بات چیت ہے جب کہ دوسرے فریق ان دونوں ملکوں کے درمیان اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ایرانی مذاکراتی وفد نے ایسے مطالبات پیش کیے ہیں جنہیں امریکہ اور مغربی سفارت کار غیرحقیقی سمجھتے ہیں۔ ایران نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین 2017 سے عائد تمام پابندیاں بشمول وہ پابندیاں جن کا تعلق اس کے جوہری پروگرام کے ساتھ نہیں ہے، انہیں قابل تصدیق انداز میں ختم کرے۔
باقری کنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ واشنگٹن اور اس کے مغربی اتحادیوں کو ضمانت دینی چاہیے کہ مستقبل میں ایران پر نئی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔
باقری کنی نے صحافیوں کو بتایا: ’مذاکرات کے تمام فریقوں نے ایران کا یہ مطالبہ تسلیم کیا ہے کہ پہلے امریکہ کی غیر قانونی اور غیر منصفانہ پابندیوں کے حوالے صورت حال واضح ہونی چاہیے اور پھر ہم دوسرے معاملات کو زیر بحث لا کر ان پر فیصلہ کریں گے۔‘
دوسری جانب بڑی طاقتوں نے ان موضوعات کے مراحل کے حوالے سے باقری کنی کے بیان پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کے دفتر کے مطابق انہوں نے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی کو ٹیلی فون کر کے ان پر زور دیا کہ ایران ایٹمی معاہدے میں جلد واپسی کے لیے ’تعمیری کردار‘ ادا کرے اور ایٹمی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں۔
واضح رہے کہ ایٹمی پروگرام کی نگرانی کرنے والے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ ایران کے اختلافات نے شدت اختیار کر لی ہے۔
ایران نے یورنیم کی افزودگی کے منصوبے کو آگے بڑھایا ہے، جبکہ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ اس کے انسپکٹرز کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا گیا انہیں اس مقام پر نگرانی کے لیے استعمال ہونے والے کیمرے دوبارہ لگانے کے لیے رسائی دینے سے انکار کر دیا گیا۔ عالمی ادارہ اس عمل کو ایٹمی معاہدے کی بحالی کے ضروری سمجھتا ہے۔
ٹرمپ کے ایٹمی معاہدے سے الگ ہونے کے بعد سے ایران نے معاہدے کی کئی خلاف ورزیاں کیں جن کا مقصد اس وقت کو طول دینا ہے جس کی اسے ایٹم بم بنانے کے لیے درکار مواد کی تیاری کے لیے ضرورت ہے۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ وہ صرف سول استعمال کے لیے یورنیم افزودہ کرنا چاہتا ہے۔