سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے رکن اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں منگل کو تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
آج کی سماعت میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف لالا اور دیگر وکلا علی وزیر کی جانب سے پیش ہوئے۔
عدالت نے علی وزیر کو چار لاکھ روپے کے مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شریک ملزمان کی ضمانت ہوچکی جسے چیلنج نہیں کیا گیا اس لیے علی وزیر کو جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔
پشاور پولیس نے علی وزیر اور دیگر کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ریلی کے دوران سکیورٹی اداروں اور ریاستی اداروں کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز اور اشتعال انگیز زبان استعمال کرنے پر دسمبر 2020 میں سندھ پولیس کی درخواست پر گرفتار کیا تھا۔
پی ٹی ایم رہنما نے ٹرائل کورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اپنے وکیل کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ میں دوسری درخواست دائر کی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلےکو چیلنج کیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں منگل کو تین رکنی بینچ نے علی وزیر کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا نام لیے بغیر تذکرہ کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ریاست مذاکرات کرکے لوگوں کو چھوڑ رہی ہے۔ ’ہو سکتا ہے کل علی وزیر کے ساتھ بھی معاملہ طے ہو جائے۔‘
جسٹس طارق نے مزید کہا کہ لوگ شہید ہو رہے ہیں کیا وہاں قانون کی کوئی دفعہ نہیں لگتی؟ کیا عدالت صرف ضمانتیں خارج کرنے کے لیے بیٹھی ہوئی ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا علی وزیر کے الزامات پر پارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے؟ علی وزیر نے شکایت کی تھی ان کا گلہ دور کرنا چاہیے تھا۔ ’اپنوں کو سینے سے لگانے کی بجائے پرایا کیوں بنایا جا رہا ہے؟ علی وزیر کا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا؟‘
انہوں نے کہا کہ شریک ملزمان کے ساتھ رویہ دیکھ کر گڈ طالبان بیڈ طالبان والا کیس لگتا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ علی وزیر پر اس طرح کے اور بھی مقدمات ہیں جس پہ جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ کیا دیگر کیسز میں ضمانت ہوگئی ہے؟ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے جواب دیاکہ علی وزیر کی کسی اور مقدمہ میں ضمانت نہیں ہوئی۔
جسٹس سردار طارق نے مزید کہا کہ علی وزیر پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا، وہ دفعہ کیوں لگائی ہے؟
علی وزیر کے وکیل لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ علی وزیر نے تقاریر میں صرف شکایت کی تھی۔ علی وزیر کی پشتو تقریر پر سندھی پولیس افسر نے مقدمہ کیسے درج کر لیا؟
جسٹس امین الدین نے ریماکس دیئےکہ ریکارڈ سے واضح ہے کہ مقدمہ ترجمہ کرانے کے بعد درج ہوا۔
کمرہ عدالت میں رکن اسمبلی محسن داورڑ بھی موجود تھے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ علی وزیر کےدوست ہیں۔ اس موقع پر پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سپریم کورٹ نے گذشتہ ہفتے کیس مقرر کیا لیکن شماعت نہ ہو سکی۔ رواں ہفتے پیر کے روز علی وزیر کے وکیل میسر نہیں تھے۔ منگل کو سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت کی اور دلائل کے ساتھ باضابطہ پہلی سماعت میں ضمانت منظور کر لی۔