خیبر پختونخوا حکومت نے متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) کے سابق سینیٹر اور پرویز مشرف کے سابق ترجمان بیرسٹر محمد علی خان سیف کو صوبائی حکومت کا ترجمان مقرر کیا ہے جنہوں نے آج پہلی مرتبہ پشاور میں کابینہ اجلاس کے بعد باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔
بیرسٹر سیف وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون برائے اطلاعات و تعلقات عامہ ہوں گے۔
تاہم ان کی تعیناتی پر مبصرین کی آرا منقسم دکھائی دے رہی ہے۔ بعض کے خیال میں صوبائی حکومت کو تاحال ’سمجھ دار‘ ترجمان نہیں ملا، یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے صوبے میں سیاست کرنے والے شخص کو صوبائی ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔
اسی طرح دیگر مبصرین سمجھتے ہیں کہ بیرسٹر سیف ایک سیدھی بات کرنے والے اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت کئی مہینوں سے ان کو لانے کی کوشش کر رہی تھی، تاکہ صوبے میں ان کے کیے گئے کام اور صوبائی حکومت کی میڈیا میں بہتر طریقے سے ترجمانی کی جا سکے۔
پشاور کے صحافی اور گذشتہ کئی عرصے سے پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والے والے لحاظ علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بیرسٹر سیف کا ابتدا سے تعلق ’خاص لوگوں‘ کے ساتھ رہا ہے جبکہ ان کو سینیٹر بھی ’خاص لوگوں‘ نے بنایا تھا اور اب ان کو صوبے کی سیاست میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’بیرسٹر سیف پاکستان تحریک انصاف کے دیگر ترجمانوں سے قدرے بہتر ہیں۔ وہ اچھی ترجمانی کر سکتے ہیں۔‘
’اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس کوئی ایسا اہل شخص نہیں تھا جس کو ترجمان بنایا جائے لیکن صوبے میں بیرسٹر سیف کو اکموڈیٹ کیا گیا ہے۔‘
بیرسٹر سیف کی تعیناتی سے پہلے کامران بنگش وزیر اطلاعات تھے اور وہ کسی صوبے کے ترجمانوں میں سب سے نوجوان ترجمان تھے۔
کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال بالکل نامناسبت ہے کہ بیرسٹر کو کیوں ترجمان بنایا گیا ہے، کیونکہ صوبے کے ترجمان کی تعیناتی وزیر اعلیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ کسی بھی شخص کو ترجمان بنا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بیرسٹر سیف اہل ہیں اور اچھے طریقے سے صوبائی حکومت کی ترجمانی کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کو صوبائی حکومت کا ترجمان بنایا گیا۔‘
ان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا صوبے میں ایسا کوئی منتخب رکن اسمبلی نہیں تھا جن کو ترجمان بنایا جاتا؟ تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں ابھی تک ترجمان تھا تو میں تو منتخب رکن تھا، اسی طرح اب وزیراعلیٰ نے بیرسٹر سیف کو ترجمان مقرر کیا جو ان کے اختیار میں ہے۔‘
خیبر پختونخوا حکومت میں ترجمانوں کی تبدیلی
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد مختلف موقعوں پر ترجمانوں کو تبدیل کرتی رہی ہے۔
بیرسٹر سیف سے پہلے کامران بنگش ترجمان تھے جبکہ ان سے پہلے اجمل وزیر صوبائی حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
اسی طرح اجمل وزیر سے پہلے رکن صوبائی اسمبلی شوکت یوسفزئی صوبائی حکومت کے ترجمان تھے جبکہ ان سے پہلے شاہ فرمان، مشتاق غنی اور افتخار درانی صوبائی حکومت کے ترجمان رہ چکے ہیں۔
ترجمانوں کی تبدیلی کے حوالے سے پشاور کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار ایم ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ صوبے میں جو ترقیاتی کام ہو رہے ہیں، ان کی درست طریقے سے تشہیر نہیں کی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ صوبے میں پے در پے ترجمان تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔‘
ایم ریاض سے جب بیرسٹر سیف کی تعیناتی کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ آئندہ سال بہت اہم ہے کیوں کہ آئندہ سال انتخابات کی تیاری کا سال ہوگا اور پی ٹی آئی ایک ایسے شخص کو لانا چاہتی تھی جو وفاقی اور صوبائی سطح پر صوبائی حکومت کی ترجمانی کر سکے۔
’کامران بنگش صوبے میں سب سے زیادہ عرصہ ترجمان رہے ہیں، اسی طرح ان کے ساتھ سیکریٹری انفارمیشن اور ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ انہوں نے اچھی ٹیم بنائی تھی اور صحافیوں کے ساتھ بھی ان کا تعلق بہتر رہا ہے تاہم صوبائی حکومت اب ایک پروگریسیو شخص کو لانا چاہتے تھے تاکہ وہ بہتر طریقے سے پارٹی کی پروجیکشن کر سکے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بیرسٹر سیف کو ویسے ہی لایا گیا ہے جیسے وفاق میں فواد چوہدری اور پنجاب میں شہباز گل لائے گئے ہیں۔‘
پی ٹی آئی کی جانب سے ’ففتھ جنریشن وار فیئر‘ کی بات بھی ہو رہی ہے اور وہ سوشل میڈیا کے استعمال میں بہت سنجیدہ ہے۔
ان سے جب صوبے میں بیرسٹر سیف کے صحافیوں سے تعلقات کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بیرسٹر صوبے میں بہت کم عرصے کے لیے سیاست کی ہے جب وہ مشرف کے پارٹی کے یوتھ ونگ کے صدر تھے جبکہ زیادہ عرصہ انہوں نے اسلام آباد میں سیاست کی ہے۔
’ان کا صوبے میں صحافیوں کے ساتھ گہرا تعلق نہیں ہے تاہم ان کو صوبے میں کام کرنے میں آسانی اس لیے ہوگی کہ وہ پشتون ہیں اور اسی صوبے کے ساتھ ان کا تعلق ہے۔‘
بیرسٹر سیف سے جب پوچھا گیا کہ بعض مبصرین کے خیال میں انہوں نے زیادہ تر سیاست اسلام آباد یا سندھ میں کی ہے تو کیا وہ خیبر پختونخوا میں بہتر کام کر سکیں گے؟ تو اس کے جواب میں بیرسٹر سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شاید زیادہ لوگوں کو علم نہ ہوں کہ ’میں بے شک سندھ سے سینیٹر رہا ہوں لیکن میرا تعلق خیبر پختونخوا سے ہی ہے اور یہاں پر ہی رہتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’میں وکالت کے سلسلے میں اسلام آباد آتا جاتا رہتا ہوں لیکن میرا گھر والدین اور سب لوگ خیبر پختونخوا ہی میں ہیں اور اس صوبے کی سیاست سے واقف ہوں۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ صوبائی حکومت کی میڈیا پر اچھی تشہیر کی امید پوری ہو سکتی ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے اسی کام کے لیے چنا ہے اور میں پوری کوشش کروں گا کہ ان کی امیدوں پر پورا اتر سکوں، مجھے امید ہے کہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے سر انجام دوں گا۔‘
بیرسٹر سیف کون ہیں؟
بیرسٹر محمد علی خان سیف جو بیرسٹر سیف کے نام سے جانے جاتے ہیں مارچ 2015 سے مارچ 2021 تک متحدہ قومی موومنٹ کی نشست پر سندھ سے سینیٹر رہے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ بیرسٹر سیف کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے ایک پشتون قبیلے سے ہے۔
انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے فلسفے اور سیاسیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ماسٹرز ڈگری کے بعد انہوں نے فرانس کے لا انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن رائٹس سے سرٹیفکیٹ کورس کیا ہے۔
بیرسٹر سیف نے یونیورسٹی آف بکنگھم سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے جبکہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ’انٹرنیشنل ٹریڈ لا ‘میں ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی جبکہ ’انٹرنیشنل لا‘ میں یونیورسٹی آف لندن سے بھی ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی ہے۔
بیرسٹر سیف کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ’پاکستان میں خود کش‘ حملوں کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے جبکہ لندن سے ’مذہبی آزادی اور توہین مذہب‘ قانون میں بھی پی ایچ ڈی حاصل کی ہے۔
سیاسی کریئر
بیرسٹر سیف نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف اداروں میں کام کیا ہے۔
ان کی ویب سائٹ کے مطابق وہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے لیگل ایڈوائزر رہے ہیں جبکہ اینٹی نارکوٹکس فورس پاکستان اور امریکہ کے قانونی مشیر بھی رہے ہیں۔ بیرسٹر سیف سپریم کورٹ آف پاکستان اور فیڈرل شرعیت کورٹ کے وکیل بھی ہیں۔
بیرسٹر سیف نے سیاسی کریئر کا آغاز پرویز مشرف کی سیاسی جماعت ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ سے کیا تھا اور اس کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے تھے، پھر متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد ان کے مرکزی رابطہ کمیٹی کے رکن بن گئے تھے۔
وہ وفاقی وزارت برائے خواتین اور یوتھ افیئرز کے مشیر بھی رہے ہیں جبکہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ترجمان بھی تھے۔
اسی طرح بیرسٹر سیف وزیر سیاحت و یوتھ افئیرز بھی رہے ہیں جبکہ بعد میں وہ مارچ 2021 تک سینیٹر رہے۔