فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ اینٹنی بلنکن نے جمعرات کو کہا ہے کہ ایران کے لیے عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری معاہدے کو بحال کرنے میں زیادہ دیر نہیں ہوئی لیکن اس کی امید کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے آپ کو بتانا ہے، حالیہ حرکتیں، حالیہ بیان بازی، ہمیں بہت زیادہ پر امیدی کی وجہ فراہم نہیں کرتیں۔‘
اینٹنی بلنکن نے سٹاک ہوم میں یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای) کے حاشیوں پر ذرائع ابلاغ کے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ وقت بہت دیر سے گزر رہا ہے، ایران کے لیے راستہ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں ہوئی‘ کہ وہ 2015 کے اس معاہدے کو بچالے جو تہران کو ایٹم بم بنانے سے روکتا تھا۔
جمعرات کو اینٹنی بلنکن کو کی جانے والی ایک فون کال میں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ویانا میں ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کو ’فوری طور پر بند‘کرنے پر زور دیا جو پانچ ماہ کے وقفے کے بعد پیر کو دوبارہ شروع ہوئے تھے۔
بلنکن نے درخواست پر براہ راست تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم بہت جلد جان لیں گے، میرے خیال میں اگلے ایک یا دو دن میں، آیا ایران سنجیدہ ہے یا نہیں۔‘
’مستقبل قریب میں، اگلے دن یا اس کے بعد، ہم یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ کیا ایران واقعی اب نیک نیتی سے کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ایران حالت جوں کی توں برقرار رکھتے ہوئے مذاکرات اور اپنے جوہری پروگرام کی تعمیر کو جاری نہیں رکھ سکتا۔ ایسا نہیں ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روئٹرز کے مطابق یہ واضح نہیں تھا کہ آیا بلنکن کو ایرانیوں کی طرف سے تازہ ترین تجاویز کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی جس وقت انہوں نے یہ بیان دیا تھا۔
اُدھر ایران کے اعلی جوہری مذاکرات کار علی باغیری کانی نے آسٹریا کے دارالحکومت میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم نے انہیں دو مجوزہ مسودے فراہم کیے ہیں، یقیناً انہیں ان متنوں کی جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے جو ہم نے انہیں فراہم کیے ہیں۔ اگر وہ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں تو ہم بات چیت جاری رکھنے کے لیے ویانا میں موجود ہیں۔‘
ویانا میں ایک یورپی سفارت کار نے تصدیق کی کہ ایرانی دستاویزات کا مسودہ حوالے کر دیا گیا ہے۔
2015 کے معاہدے میں ایران پر اس کی جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیوں کے بدلے اقتصادی پابندیاں اٹھانے کی پیشکش کی گئی تھی۔
مقصد یہ تھا کہ ایران کے لیے ایٹم بم بنانا عملی طور پر ناممکن ہو جائے جبکہ اسے سویلین جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کی اجازت دی جائے۔
لیکن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو منسوخ کرتے ہوئے ایران پر پابندیاں عائد کر دی تھیں کو تاحال برقرار ہیں۔
اس کے بعد ایران جو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے انکار کرتا رہا ہے 2019 کے بعد سے اپنے وعدوں سے پھرتا رہا ہے۔
موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ معاہدے میں واپس آنا چاہتا ہے اگر ایران اصل شرائط پر عمل کرنا شروع کردے۔