’خواتین کو تنگ کرنے والوں کے ساتھ پریانتھا کا رویہ سخت ہوتا تھا‘

سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں مارے جانے والے سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کی والدہ کے مطابق وہ ملازمین کا خیال رکھتے تھے اور ’خواتین ملازمین کو تنگ کرنے والوں کے ساتھ رویہ کافی سخت ہوتا تھا۔‘

چار دسمبر 2021 کی اس تصویر میں پاکستانی صنعت کار سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی تصویر کے سامنے پھول رکھ رہے ہیں(اے ایف پی)

پریانتھا کمارا وزیرآباد روڈ سیالکوٹ پر واقعہ سپورٹس اور دیگر اقسام کے کپڑے بنانے کی فیکٹری راجکو کے جنرل مینیجر تھے جنہیں گذشتہ روز پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں مبینہ توہین مذہب کے الزام کے بعد مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔

 پریانتھا کمارا کے لنکڈ ان پروفائل کے مطابق وہ راجکو انڈسٹریز میں 2013 سے جنرل مینیجر کے طور پر کام کر رہے تھے۔

راجکو انڈسٹریز کی ویب سائٹ کے مطابق یہ کمپنی 1935 سے پوری دنیا میں کھیلوں میں استعمال ہونے والے لباس کی تیاری اور برآمد کرتی ہے۔ یہ ایک نجی کمپنی ہے اور اس میں ایک ہزار سے پانچ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔

 پریانتھا کی پروفائل کے مطابق انہوں نے اپریل 2010 سے 2012 تک انڈسٹریل انجینئیرنگ مینیجر کے طور پر فیصل آباد میں کریسنٹ ٹیکسٹائل مل کے ساتھ کام کیا۔

سیالکوٹ پولیس کے ایک ترجمان خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پریانتھا کمارا 2010 سے پاکستان میں مقیم تھے جب کہ ایک دو سال قبل ان کی اہلیہ اپنے بچے سمیت پاکستان سے سری لنکا واپس چلی گئیں تھیں۔‘

 ان کے مطابق سری لنکن شہری کی عمر تقریباً 50 برس تھی۔ پریانتھا کمارا کے لنکڈ ان اکاؤنٹ کے مطابق انہوں نے سری لنکا کی یونیورسٹی آف پیرادنیا میں 2000 سے 2005 تک انجینئرینگ کی تعلیم حاصل کی۔

سوشل میڈیا اکاؤنٹس فیس بک اور لنکڈ ان پریانتھا کمارا کی موجودگی بہت زیادہ نہیں تھی اور ان کے اکاؤنٹ پبلک بھی نہیں تھے۔

سیالکوٹ کی ایک رہائشی خاتون جن کی بیٹیاں راجکو فیکٹری میں کام کرتی ہیں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میری بچیاں فیکٹری میں گذشتہ چھ سات سال سے کام کر رہی تھیں۔ پریانتھا کمارا بہت اچھے آدمی تھے۔ خاص طور پر فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کا بہت خیال رکھتے اور ان کی مدد بھی کرتے تھے۔‘

خاتون کا مزید کہنا تھا: ’ان کے ساتھ جو حادثہ ہوا اس سے دلی افسوس ہوا اور میری بچیاں کافی پریشان ہیں۔ وہ سری لنکا سے پاکستان آئے اور ہمارے بچوں کے روز گار کا سبب بنے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’فیکٹری کے اندر خواتین کو تنگ کرنے والوں کے ساتھ پریانتھا کمارا کا رویہ کافی سخت ہوتا تھا۔‘

 انہوں نے بتایا: ’فیکٹری کا کوئی ملازم بیمار ہوجاتا تو وہ اسے خود اپنی گاڑی میں فیکٹری کے ہسپتال بھجواتے اور اس کا پورا علاج معالجہ کرواتے یہاں تک کہ غریب ملازمین کے گھر جا کر بھی ان کی مالی مدد کرتے تھے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو اس ضمن میں راجکو انڈسٹریز سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا موقف موصول ہونے پر خبر میں شامل کر دیا جائے گا۔ 

صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے گذشتہ روز جمعے کو مبینہ توہین مذہب کے الزام میں سری لنکن فیکٹری مینیجر کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش جلا دی تھی۔

 پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق تازہ ترین پیش رفت میں پولیس نے تشدد کرنے اور اشتعال انگیزی میں اہم ملزمان سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

ترجمان کے مطابق پولیس نے واقعے میں ملوث 100 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے جن کے کردار کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ کئی مذہبی جماعتوں نے بھی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ خود ’تحقیقات کی نگرانی‘ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’کسی کو کوئی علط فہمی نہیں ہونی چاہیے، تمام ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا