امریکی انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ روس ممکنہ طور پر یوکرین میں فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جو آئندہ سال کے آغاز پر شروع کی جا سکتی ہے۔ تاہم روس نے ایسی کسی منصوبہ بندی کی تردید کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق امریکی خفیہ ادارے کی رپورٹ کے بعد صدر جو بائیڈن نے عہد کیا ہے کہ وہ روسی صدر ولادی میر پوتن کے لیے یوکرین میں فوجی کارروائی کو ’بہت مشکل‘ بنا دیں گے۔
دوسری جانب روس کی وزارت خارجہ نے یوکرین پر ممکنہ حملے کے بارے میں امریکی میڈیا کی نئی رپورٹس کو مسترد کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ’کومرسنٹ‘ اخبار نے روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کے حوالے سے بتایا کہ ’امریکہ یوکرین کی صورت حال کو مزید خراب کرنے کے لیے ایک خصوصی آپریشن کر رہا ہے اور اس کی ذمہ داری روس پر ڈال رہا ہے۔‘
روسی ترجمان نے مزید کہا: ’یہ (آپریشن) روس کی سرحدوں کے قریب اشتعال انگیز کارروائیوں پر مبنی ہے جس میں الزام تراشی پر مبنی بیان بازی بھی شامل ہے۔‘
جب کہ کیف کا کہنا ہے کہ اسے بھی خدشہ ہے کہ روس یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس کے برعکس ماسکو نے یوکرین پر حملہ کرنے کے کسی بھی منصوبے کی تردید کرتے ہوئے کیف پر الزام لگایا ہے کہ وہ روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ علاقوں پر حملہ کرنے کے لیے اپنی افواج تیار کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ نئی انٹیلی جنس کی معلومات سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ روسی یوکرین میں ایک لاکھ 75 ہزار فوجیوں کو تعینات کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جن میں سے تقریباً نصف پہلے سے ہی یوکرین کی سرحد کے قریب مختلف مقامات پر تعینات ہیں۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب روس نے امریکی صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یہ ضمانت دیں کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
امریکی اہلکار نے مزید کہا کہ کریملن کے ان منصوبوں میں 100 روسی بٹالین کی ٹیکٹیکل گروپس کے ساتھ ساتھ آرمر، آرٹلری اور دیگر حربی آلات کی نقل و حرکت بھی شامل ہے۔
امریکی اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ انٹیلی جنس حکام نے ممکنہ حملے سے قبل یوکرین اور نیٹو کو بدنام کرنے کے لیے پراکسی اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے روسی پروپیگنڈے کی کوششوں میں اضافے کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔
جمعے کی شام کیمپ ڈیوڈ میں قیام کے لیے نکلتے وقت انٹیلی جنس معلومات کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات پر امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی اشتعال انگیزیوں کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایک طویل عرصے سے روس کے اقدامات سے واقف ہیں اور مجھے امید ہے کہ ہم صدر پوتن کے ساتھ اس معاملے ہپر طویل بات چیت کرنے والے ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق اگر صدر پوتن حملے کے منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں تو ان کے لیے اس طرح کی چال کے نتائج خطرنات بھی ہو سکتے ہیں۔
امریکی حکام اور سابق امریکی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جب پوتن واضح طور پر ممکنہ حملے کی جانب بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب یوکرین کی فوج گذشتہ برسوں کے مقابلے آج بہتر طور پر اس کے لیے مسلح اور تیار ہے۔ اس کے علاوہ مغرب کی طرف سے اس حملے کے خلاف پابندیوں کی دھمکی سے روس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کیا صدر پوتن ان تمام خطرات کے باوجود یوکرین پر جارحیت کے منصوبوں پر عمل کریں گے۔
جمعے کو بائیڈن نے عہد کیا کہ روسی صدر کے لیے یوکرین میں فوجی کارروائی کرنا ’بہت، بہت مشکل‘ بنایا جائے گا۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ ان کی انتظامیہ کی جانب سے نئے اقدامات کا مقصد روسی جارحیت کو روکنا ہے۔
دوسری جانب کریملن نے جمعے کو کہا کہ صدر پوتن اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کے دوران نیٹو کی یوکرین تک توسیع کو روکنے کے لیے ضمانت کا مطالبہ کریں گے لیکن بائیڈن نے یہ مطالبہ مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا: ’میں کسی کی بھی جانب سے ایسی سرخ لکیر کو قبول نہیں کرتا۔‘
ادھر یوکرین کے حکام نے بھی خبردار کیا ہے کہ روس اگلے ماہ ان کے ملک پر حملہ کر سکتا ہے۔
یوکرین کے وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف نے جمعے کو پارلیمان کو بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق یوکرین کی سرحد کے قریب اور روس سے الحاق شدہ کریمیا میں روسی فوجیوں کی تعداد 94 پزار سے زیادہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جنوری میں اس تعداد میں ’بڑے پیمانے پر اضافہ‘ ممکن ہے۔