انسٹاگرام کے سربراہ کو بدھ کے روز امریکی قانون سازوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب لیک ہونے والی اندرونی تحقیق پر مبنی پریس رپورٹس سے پتہ چلا کہ فوٹو شیئرنگ ایپ اپنے نوجوان صارفین کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
انسٹاگرام کے باس ایڈم موسیری کی گواہی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فیس بک کا مرکزی ادارہ میٹا اپنے تحت چلائے جانے والے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے اپنے ہی دستاویزات سے پیدا ہونے والے بحران سے نبرد آزما ہے۔ اس بحران نے قانون کے دائرے میں لائے جانے کے برسوں پرانے امریکی دباؤ کو دوبارہ تازہ کر دیا ہے۔
فیس بک کے ’وسل بلور‘ فرانسس ہوگن کی طرف سے صحافیوں، قانون سازوں اور ریگولیٹرز کو لیک ہونے والی دستاویزات میں 2019 کی تحقیق شامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انسٹاگرام تین میں سے ایک نوعمر لڑکی کے لیے جسمانی تصویر کے مسائل کو مزید خراب کرتا ہے۔
2020 کی ایک اور رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 32 فیصد نوعمر لڑکیوں نے کہا کہ جب وہ اپنے جسم کے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام نے اسے مزید خراب کر دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیس بک کو وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹسں کے ایک سلسلے کے نتائج سامنے آنے کے بعد پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ فیس بک نے اپنے دفاع میں یہ دلیل دی ہے کہ اس کی تحقیق کو غلط انداز میں پیش کیا گیا تھا۔
سینیٹرز رچرڈ بلومینتھل اور مارشا بلیک برن اس سماعت کی قیادت کر رہے ہیں جو اس سلسلے کی تازہ ترین تحقیقات کر رہی ہے کہ سوشل میڈیا کس طرح نوعمر افراد کو اپنے بارے میں برا محسوس کرا سکتا ہے۔
بلومینتھل نے منگل کو کہا ہے کہ ’والدین کے ساتھ میری بات چیت نے مجھے۔۔۔۔ اصلاحات کے لیے لڑنے اور ان جوابات کا مطالبہ کرنے کے لیے تیار کیا جن کے جوابات ساری قوم مانگ رہی ہے۔‘
گذشتہ بدھ کو سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے کامرس کے سامنے پیشی کے موقع پر انسٹاگرام نے اعلان کیا تھا کہ نوجوانوں کے لیے نئے حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں وقفہ لیے جانے کی تجویز بھی شامل ہے اگر دیکھا جائے کہ صارفین پلیٹ فارم پر زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔