پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف ’ضرب عضب‘ کارروائی کے دوران افغانستان منتقل ہونے والے متاثرین کی واپسی تو شروع ہوگئی ہے مگر علاقے میں سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے وہ اپنے گھروں کی بجائے بنوں بکاخیل متاثرین کیمپ پہنچ رہے ہیں جہاں ان کے لیے مقامی انتظامیہ نے فوج کی تعاون سے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔
پاک افغان سرحدی چیک پوسٹ غلام خان پر موجود تحصیلدار غنی الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 30 گاڑیوں پر مشتمل متاثرین کا قافلہ زیرو پوائنٹ پہنچ گیا ہے جن کی رجسٹریشن جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رجسٹریشن کے بعد ان کو بنوں بکاخیل کیمپ روانہ کیا جارہا ہے جہاں پہلے سے ان کے لیے خیمہ بستی مکمل کرلی گئی ہے۔اہلکار کے مطابق راشن اور نقد پیکیج کے علاوہ متاثرین کے بچوں کو سکول کی کتابیں اور بستے بھی دیے جارہے ہیں تاکہ ان کا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہے۔
ڈپٹی کمشنر شاہد علی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے بعد بارہ ہزار سے زیادہ متاثرین افغانستان چلےگئے تھے اور افغانستان کے مختلف علاقوں خوست ،پکتیکا، پکتیا اور برمل میں رہائش پزیر ہوگئے تھے۔ڈپٹی کمشنر کے مطابق حکومت کے فیصلے کے مطابق تمام متاثرین غلام خان کے راستے سے سیدھا بنوں متاثرین کیمپ لے جائے جارہے ہیں جہاں ان کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی تین فیزوں میں پانچ ہزار سے زائد خاندان واپس آچکے ہیں اور ہر خاندان کو متاثرین پیکج ملے گا جس میں بارہ ہزار ماہوار اور فوڈ پیکج آٹھ ہزار سم کے ذریعے دیے جائیں گے۔
تحصیلدار غنی الرحمن کے مطابق متاثرین میں زیادہ تر کا تعلق دتہ خیل شوال سے ہیں جو افغان سرحد کے قریب آباد ہیں جہاں اب بھی دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارائیاں تیزی سے جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک علاقہ کلئیر نہ ہو تب تک متاثرین بکا خیل متاثرین کیمپ یا قریبی علاقوں میں اپنے رشتہ داروں یا کرائے کے مکانوں رہ سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دتہ خیل کے رہائشی ہدایت اللہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغان سرحد کے اُوپر تحصیل شوال کے گاؤں زووئی میں آباد سیدگی قبائل ضرب عضب کے دوران سرحد کے اس پار افغانستان چلے گئے تھے اور گاؤں سیدگی کی آبادی گیارہ سو خاندانوں پر مُشتمل تھی اور ابھی تک کسی بھی خاندان کے ایک فرد کو واپس اپنے گاؤں آنے نہیں دیاگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیدگی قبائل کا چلغوزے کا گڑھ سمھجے جاتے ہیں اور سیدگی قبائل کی آمدن بھی انہی چلغوزوں کے جنگل پر منحصر تھی۔
ہدایت اللہ کے مطابق گزشتہ آٹھ سالوں سے سیدگی قبائل چلعوزے کے آمدن سے محروم ہیں اور اب افغانستان سے واپسی کے بعد متاثرین کیمپوں میں بھیجے جانا بہت زیادہ پریشان کن ہے۔
واضح رہے کہ ضرب عضب کے بعد افغانستان جانے والے قبائل کے مشران نے کئی بار حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کو اپنے مُلک آنے دیا جائے مگر حکام کا کہنا تھا کہ سرحد کے اس پار افغانستان کے علاقے رخہ،مانگڑیتی میں آباد وزیر سیدگی قبائل کے ساتھ ساتھ شدت پسند طالبان کے ٹھکانے بھی موجود ہیں اور واپسی کے دوران یہ خدشہ رد نہیں کرسکتے کہ عام قبائلی کے شکل میں شدت پسند طالبان پاکستان میں داخل ہوجائیں گے۔