پنجاب حکومت نے سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے سری لنکن شہری پرینتھا کمارا کے قتل اور ان کی لاش کو نذرِ آتش کرنے میں ملوث 34 زیر حراست مرکزی ملزمان کا مقدمہ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ جیل کے اندرچلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ انسپیکٹر جنرل پنجاب کی درخواست کی پیروی اور U/s 15 انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت دیے گئے اختیارات کے تحت کیا ہے۔
فیصلے کے مطابق اس کیس میں ملوث زیر حراست 34 مرکزی ملزمان کا ٹرائل متعلقہ عدالت ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ کے اندر کرے گی۔
اس فیصلے کی کاپی رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ، پریزائڈنگ آفیسر انسداد دہشت گردی کورٹ گجرانوالہ، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب، آئی جی پریزن پنجاب، آئی جی پنجاب، آر پی او گجرانوالہ، ڈی پی او سیالکوٹ، سپریٹینڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھیج دی گئی ہے۔ (نوٹفیکیشن کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے)
اس حوالے سے پراسیکیوشن نے جیل انتظامیہ کو انتظامات کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیالکوٹ پولیس کے ایک ترجمان خرم شہزاد نےانڈپینڈٹ اردو کو بتایا کہ یہ 34 ملزمان 21 دسمبر تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔
یادر ہے کہ رواں ماہ تین دسمبر کو سیالکوٹ کی راجکو فیکٹری کے جنرل مینیجر کو مشتعل ہجوم نے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں پہلے قتل کیا اور اس کے بعد ان کی لاش کی بے حرمتی کر کے ان کو نذر آتش کر دیا تھا۔
پنجاب پولیس اس واقعے کے بعد اب تک ایک سو سے زائد ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے جبکہ ان میں سے 34 مرکزی ملزمان شامل ہیں، جنہیں پنجاب پولیس نے موقع سے ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل فوٹیج سے شناخت کرنے کے بعد گرفتار کیا۔
ان 34 ملزمان میں وہ لوگ شامل ہیں جن پر پرینتھا کمارا پر حملے کرنے، انہیں قتل کرنے اور لاش کی بےحرمتی کرنے پر اکسانے کا الزام ہے۔