’سیالکوٹ جیسا واقعہ تو کہیں بھی ہو سکتا ہے، نہیں ہونا چاہیے، ہو جاتا ہے۔ میں پریشان نہیں ہوں، پھر بھی چاہوں گا کہ جلدی واپس چلا جاؤں، لیکن دوبارہ پاکستان ضرور آؤں گا۔‘
یہ کہنا تھا پاکستان کے ایک بڑے صنعتی شہر میں موجود غیر ملکی صنعتی ماہر کا جو ایک بین الاقوامی کمپنی کے نمائندے کی حیثیت سے گذشتہ ایک ماہ سے ملک کے مختلف حصوں کے دورے کر رہے ہیں۔ ان کی شناخت ان کی سکیورٹی کے پیش نظر صیغہ راز میں رکھی جا رہی ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پاکستان کے پہلے دورے پر ہی میں اس ملک کا دلدادہ ہوگیا ہوں اور موقع ملا تو دوبارہ بھی یہاں آؤں گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ ہفتے سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کی توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے واقعے نے انہیں پریشان تو کیا، تاہم پاکستانی میزبانوں کے رویوں اور حوصلہ افزائی سے انہیں بہت تسلی ہوئی۔ ’مجھے پکا یقین ہے کہ سارے پاکستانی ایسی ظالمانہ سوچ کے حامل نہیں، یہاں اچھے لوگ اکثریت میں ہیں۔‘
دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ کے ایک سینئیر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیالکوٹ کے واقعے کے بعد صنعتوں میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کی سکیورٹی سے متعلق معاملات پر غور و خوص جاری ہے اور اس سلسلے میں ملک میں موجود چیمبرز آف کامرس کو ہدایات دی جا سکتی ہیں۔
پاکستان کے مختلف صنعتی شہروں میں ہزاروں غیر ملکی موجود ہیں، جو تین دسمبر کو سیالکوٹ میں رونما ہونے والے واقعے کے بعد پاکستانیوں کی طرح ہی رنجیدہ اور پریشان ہیں۔
پاکستانی صنعتی یونٹ کسی غیر ملکی ماہر یا کارکن کو ملازمت دینے سے پہلے اس کی اجازت پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کام کرے والے حکومتی ادارے بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) سے لیتے ہیں۔
ملک میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے سرکاری اعدادوشمار عوامی سطح پر موجود نہیں، تاہم بورڈ کے ایک سینئیر ڈائریکٹر کے مطابق اس وقت پاکستان میں پانچ ہزار سے زیادہ غیر ملکی ورک ویزا کے ذریعے ملازمتیں کر رہے ہیں، جن میں 70 فیصد سے زیادہ چینی باشندے ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی او آئی کے سینئیر ڈائریکٹر نے بتایا کہ پاکستان میں ایشیائی ممالک کے علاوہ امریکی، یورپی اور افریقی شہری بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’غیر ملکی پاکستان میں ملازمت ورک ویزا کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں، تاہم ایک تعداد ایسی بھی ہے جو وزٹ ویزا یا بزنس ویزا پر یہاں آتے ہیں اور ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر قاسم ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کافی تعداد میں پاکستانی صنعتوں میں ملازمتیں کر رہے ہیں۔
سندھ کے سابق وزیر اور بزنس مین زاہد حسین کا کہنا تھا کہ کراچی میں واقع صنعتی یونٹس میں بھی غیر ملکیوں کی بڑی تعداد ملازمتیں کر رہی ہے۔ ’ان میں اکثریت ٹیکنیشنز کی ہے، جو ٹیکسٹائل کے علاوہ دوسری کئی فیکٹریوں میں بر سر روزگار ہیں۔‘
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے میڈیا منیجر تجمل حسین سچل کے مطابق صرف پنجاب کے صنعتی شہر سیالکوٹ میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر ملکی موجود ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف صنعتی یونٹس میں ملازمتوں کے علاوہ غیر ملکی باشندے دوسرے کئی مقاصد کے لیے بھی سیالکوٹ اور پاکستان کے دوسرے صنعتی شہروں کے دورے کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں صنعتی یونٹس کے دورے کرنے والے غیر ملکیوں میں بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کے وہ نمائندے شامل ہوتے ہیں، جو پاکستانی فیکٹریوں میں تیار ہونے والی ان کمپنیوں کی مصنوعات کے معیار کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
تجمل حسین سچل کے مطابق ایسے غیر ملکی عموماً مختصر دوروں پر پاکستان آتے ہیں اور کام مکمل ہونے پر واپس چلے جاتے ہیں۔
صنعتوں سے وابستہ غیر ملکیوں کی دوسری قسم وہ ہے جو پاکستانی صنعتوں میں ملازمت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں یہاں مستقل رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔
غیر ملکیوں کی سکیورٹی
بزنس مین زاہد حسین کے مطابق صنعتوں سے وابستہ غیر ملکیوں کی سکیورٹی تقریباً نا ممکن ہے اور اس کی وجہ ان کا بہت بڑی تعداد میں موجود ہونا ہے۔ ’آپ کیسے ہزاروں لوگوں کو سکیورٹی فراہم کر سکتے ہیں، جو ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہوں اور جنہیں بعض اوقات سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔‘
غیر ملکیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا واحد حل پاکستانی قوم میں برداشت کا پیدا کیا جانا ہے، جس کا درس مذہب اسلام بھی دیتا ہے۔‘
تاہم سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے سری لنکن فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے پیش نظر کچھ اقدامات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔
چیمبر کے نائب صدر ملک قاسم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس سلسلے میں ہم کام کر رہے ہیں کہ جو ہوا اس جیسا کوئی واقعہ مستقبل میں دوبارہ پیش نہ آئے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے چیمبر سیالکوٹ میں واقع ہر صنعتی یونٹ میں مخصوص کاؤنٹر قائم کرنے کی ترغیب دے رہا ہے، جو ایسے مسائل کو دیکھے گا تاکہ تین دسمبر جیسی صورت حال دوبارہ رونما نہ ہو پائے۔
ملک قاسم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی فیکٹری میں کسی بھی ایسے واقعے کی اطلاع ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرنے والے مخصوص کاؤنٹر کو دی جائے گی، جہاں فیصلہ ہو گا کہ اس معاملے سے کیسے نمٹنا ہے۔
’اگر واقعی کوئی ایسی بات ہو گی تو وہ مخصوص کاؤنٹر اس کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں یا پولیس کو دے گا اور سب کچھ ملکی قانون کے عین مطابق کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کسی ورکر کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس معلومات کی کمی ہوتی ہے، جس سے غلط فہمیاں اور پھر بدقسمت واقعات جنم لیتے ہیں۔
ملک قاسم نے مزید کہا کہ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں ایک بین المذاہب ہم آہنگی کمیٹی بھی بنائی جا رہی ہے، جس میں تمام مذاہب سے لوگ شامل ہوں گے، جو ایسے مسائل پیدا ہونے کی صورت میں صورت حال کو خراب ہونے سے روک سکیں گے۔
’بین المذاہب ہم آہنگی کمیٹی کی مدد سے ہم مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے بھی کوشش کریں گے۔‘
پریانتھا کمارا کے لیے معاوضہ
ملک قاسم نے مزید کہا کہ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے آنجہانی سینئیر منیجر پریانتھا کمارا کے لواحقین کے لیے ایک لاکھ ڈالر کے معاوضے کا اعلان بھی کیا ہے، جو اسلام آباد میں سری لنکن ہائی کمیشن کے ذریعے ان کی اہلیہ تک پہنچایا جائے گا۔
اسی طرح پریانتھا کمارا کے آجر راجکو انڈسٹریز نے ان کے خاندان کو تاحیات ان کی ماہانہ تنخواہ ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔